صدر شی جن پھنگ کا امن ساز دورۂ روس

سید علی نواز گیلانی
چین کے صدر شی جن پھنگ روس کے دورے پر ہیں۔ جہاں بیس مارچ کو اُن کی آمد اُور اکیس مارچ تک صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ہوئی دو اہم ملاقاتوں میں دونوں ہمسایہ ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی و سیاسی تعلقات مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اُور خاص بات یہ ہے کہ اِن ملاقاتوں پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ صدر شی کے اس دورے میں یوکرین کی جنگ میں خود کو ممکنہ امن ساز کے طور پر پیش کیا گیا ہے اُور ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے بعد چین اپنی کامیاب سفارتکاری کا ایک اُور سنگ میل جلد عبور کرنے والا ہے۔ صدر شی کے تین روزہ دورے کے پہلے دن دونوں رہنماوں نے اُن امور پر توجہ مرکوز رکھی‘ جن پر وہ دونوں متفق ہو سکتے ہیں اور وہ ہے ایک دورے کے تئیں اپنی وابستگی کو مضبوط بنانے کی اہمیت۔ صدر شی جن پھنگ نے کی صدر پیوٹن نے ’ون آن ون ملاقات اُور مذاکرات سے قبل مختصر تبصرے میں کہا کہ ”چین و روس کے دو طرفہ تعلقات پہلے سے زیادہ پختہ ہوئے ہیں‘ جن میں لچک پائی جاتی ہےاُور یہ تازہ دم (توانائی سے بھرپور) بھی ہیں۔“ دوسری طرف چین اُور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت امریکہ اُور اِس کے اتحادی یورپی ممالک کے لئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین پیشرفت میں گزشتہ روز (بیس مارچ دو ہزارتئیس) چین کے صدر شی جن پھنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے دونوں ممالک کے اتحاد کی مزید مضبوطی کے عزم کا اعادہ کیا اُور چین کے صدر اپنے ہم منصب سے ملاقات کے لئے ماسکو پہنچ گئے تو اِس سے خطے میں بڑی تبدیلیوں کے ظہور کے آثار نمایاں ہو گئے ہیں۔
صدر شی جن پھنگ نے اپنے دورے کو ”دوستی تعاون اور امن کا سفر“ قرار دیا جبکہ مغربی ممالک کی جانب سے چین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اُور کہا گیا ہے کہ چین یوکرائن پر روسی حملے کی خاموش اور سفارتی سطح پر بھی حمایت کر رہا ہے۔ چین کے صدر شی جن پھنگ گ نے روسی اخبار ’ریژین گزٹ‘ میں شائع ہونے والے اپنے دستخط شدہ مضمون میں لکھا کہ ”میں صدر پیوٹن کے ساتھ مل کر تعلقات کے لئے مشترکہ طور پر ایک نیا لائحہ عمل وضع کرنے اُور اُسے اپنانے کا منتظر ہوں۔“ چین نے یوکرین جنگ میں خود کو تاحال غیر جانبدار فریق کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ چین کی وزارت خارجہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ”بیجنگ (چین)‘ کیف (یوکرائن) اور ماسکو (روس) کے مابین ”امن مذاکرات کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔“ لیکن دنیا چین کے خیرسگالی کے جذبے اُور امن کے لئے کوششوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ دوسری طرف چین کو صدر پیوٹن کا اعتماد حاصل ہے جنہوں نے یوکرین کے بارے میں بیجنگ کے اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے تنازع کے خاتمے کے لئے تعمیری کردار ادا کرنے کی خواہش کا اشارہ قرار دیا اور کہا کہ ”چین اور روس کے تعلقات تاریخ کے ’بلند ترین مقام‘ پر ہیں۔
صدر شی جن پھنگ کے دورے سے روسی صدر پیوٹن کو تقویت‘ توانائی اُور حوصلہ ملے گا جنہوں نے اُنیس مارچ کے روز یوکرین کے شہر ماریوپول کا دورہ کیا اُور یہ فروری دوہزاربائیس میں حملے کے بعد یوکرائن کے کسی زیر قبضہ علاقے کا اُن کا پہلا دورہ تھا۔ چینی صدر کا دورہ روس‘ اِس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے یوکرین کے بچوں کو غیر قانونی طور پر ملک بدر کرنے کے جنگی جرائم کے الزام میں پیوٹن کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جانے کے چند روز بعد ہو رہا ہے۔
چین کی نظر میں یوکرائن حملے کی اہمیت نہیں بلکہ وہ صدر پیوٹن کو ’اچھے دوست‘ اُور روس کے ساتھ تعلقات کو ’دیرینہ تعلقات‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ صدر شی جن پھنگ نے رواں ماہ تیسری مدت کے لئے صدر بننے کے بعد صدر پیوٹن کو ’پرانا دوست‘ قرار دیا۔ بیجنگ اُور ماسکو حالیہ برسوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعاون اُور شراکت داری کر رہے ہیں جسے تعلقات کی ”کوئی حد نہیں“ قرار دیا جا رہا ہے اُور دونوں ممالک ایک دوسرے کے سفارتی تعلقات سے بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ چین نے یوکرین میں فوجی مداخلت پر روس کے خلاف عالمی دباؤ ڈالنے کی امریکی قیادت والی مہم کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اُور مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ اِس تنازعے سے الگ رہے اُور اگر وہ واقعی یوکرائن کا خیرخواہ ہے تو اِسے جنگ کی آگ بھڑکانے کی بجائے ”غیر جانبدارانہ ثالثی“ کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بیجنگ نے فروری میں 12 نکاتی دستاویز جاری کی تھی جس میں روس یوکرائن مذاکرات اور دیگر تمام ممالک کی علاقائی خودمختاری کے احترام پر زور دیا گیا تھا۔ بنیادی طور پر چین یہ چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر کوئی بھی ملک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرے اُور کسی ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بین الاقوامی نظم و نسق کا حکم دے۔ چین کے صدر نے اپنے مضمون میں بھی اِس کی وضاحت کی ہے اُور لکھا ہے کہ چین نے ہمیشہ روس یوکرائن مسئلے کے حوالے سے معروضی اور غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا ہے اور امن مذاکرات کو فعال طور پر فروغ دیا ہے۔ امریکہ کا کا استدلال ہے کہ چین کی تجاویز عظیم اصولوں پر بھاری لیکن عملی حل کے طور پر انہیں دیکھا جائے تو یہ ہلکی ہیں۔ امریکہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ چین کی تجاویز صرف ”روس کی فتح“ کو مستحکم کریں گی اور کریملن کو ایک نئے حملے کی تیاری کرنے کی اجازت دیں گی۔ امریکہ کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے سترہ مارچ کے روز کہا تھا کہ امریکہ فی الوقت جنگ بندی کی حمایت نہیں کرتا۔ انہوں نے چین کے سرکاری مخفف نام ’پیپلز ریپبلک آف چائنا‘ کا الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ یقینی طور پر اُس جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتا جس کا مطالبہ چینکی جانب سے ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا کیونکہ اِس سے صرف روس کو فائدہ ہوگا۔ واشنگٹن نے بیجنگ پر ماسکو کو اسلحہ برآمد کرنے پر غور کا الزام بھی عائد کیا ہے جس کی چین نے سختی سے تردید کی ہے۔
روس چین دوطرفہ تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ صدر شی جن پھنگ کے دورہ روس اُور دوستی کے فروغ کے لئے اقدامات سے یوکرین جنگ میں مفاہمت کا امکان نظر نہیں آ رہا تاہم مغربی ممالک اُن کے دورے پر گہری نظر رکھیں گے۔ وال اسٹریٹ جرنل نامی معروف جریدے نے خبر دی ہے کہ ”صدر شی جن پھنگ کے لائحہ عمل میں صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات بھی شامل ہے۔“ اِس حوالے سے جب یوکرائن کے صدر زیلنسکی سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا یوکرائن اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کا خیرمقدم کرے گا۔ صدر پیوٹن کے خارجہ پالیسی کے مژیر ’یوری اوشاکوف‘ نے روسی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں کہا تھا کہ ’صدر ژی جن پنگ اور پوٹن بیس مارچ سے ’غیر رسمی‘ ون آن ون ملاقات اور عشائیے میں شریک ہوں گے۔ وہ ”دونوں ممالک کے درمیان جامع شراکت داری اور اسٹریٹجک تعلقات کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کے لئے ایک معاہدے اور ساتھ ہی 2030ءتک روس اور چین کے اقتصادی تعاون سے متعلق مشترکہ اعلامیے پر بھی دستخط کریں گے۔

(مضمون نگار پاکستان چین فرینڈشپ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ہیں جن سے بذریعہ اِی میل syeed.gilani@gmail.com رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)

Author