اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینغزہ میں اشیائے ضروریہ نایاب، نقدی کی قلت نے شہریوں کو بے...

غزہ میں اشیائے ضروریہ نایاب، نقدی کی قلت نے شہریوں کو بے حال کر دیا

7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل فلسطین جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ کے 23 لاکھ شہری شدید معاشی اور انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔

معاشی ماہرین کے مطابق مہنگائی کی اس ریکارڈ سطح کی کئی وجوہات ہیں جن میں ناکہ بندی، رسد کےنظام کی تباہی اور مؤثر نگرانی کا فقدان شامل ہیں۔ان عوامل نے عوام کی قوتِ خرید مفلوج کر دی ہے اور بنیادی اشیائے ضروریہ لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔

تین بچوں کے باپ 33 سالہ جمیل ابو مہدی غزہ کے ان رہائشیوں میں شامل ہیں جنہیں نقد رقم حاصل کرنے کی بھاری لاگت نے پریشان کر  رکھا ہے۔

ساؤنڈ بائٹ 1 (عربی): جمیل ابو مہدی، رہائشی، غزہ

"کمیشن 50 فیصد ہے۔ یعنی اگر آپ کے پاس 500 امریکی ڈالر ہوں تو آپ صرف 250 ڈالر ہی نکال سکتے ہیں۔ ان 250 ڈالر سے آپ بمشکل ایک کلو آٹا خرید سکتے ہیں جو 30 ڈالر کا ہے۔ اگر آپ اس میں ایک بوتل پکانے کا تیل اور ایک ٹماٹر بھی شامل کر لیں تو  اگلے دن کے لئے کھانے کو کچھ نہیں بچے گا۔ ایک چھوٹے یا درمیانے درجے کے خاندان کے روزمرہ اخراجات کم از کم 150 ڈالر ہیں۔ ہم بہت تکلیف میں ہیں اور ان کٹھن حالات میں ہمیں ہمدردی اور فوری مدد کی ضرورت ہے۔”

45 سالہ محمد الحداد 6 بچوں کے والد ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آٹے کا ایک چھوٹا تھیلا ان کے خاندان کی بمشکل ایک دن کی ضرورت پوری کرتا ہے مگر تنخواہ نکالنے پر بھاری کمیشن ادا کرنے کے بعد ہی وہ یہ تھوڑا سا آٹا خرید سکتے ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 2 (عربی): محمد الحداد، رہائشی، غزہ

"فلسطینی اتھارٹی کے ایک ملازم کے طور پر اپنی تنخواہ حاصل کرنا اب انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ کمیشن کی موجودہ شرح نے تو اسے تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔اس سے پہلے 20 سے 25 فیصد کمیشن ہوتا  تھا۔ اب یہ 40 فیصد ہو گیا ہے بلکہ بعض اوقات تو 50 فیصد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ یہ ایک تنخواہ دار شخص کے لئے ناقابلِ برداشت حد تک زیادہ ہے۔پھر وہ لوگ کیا کریں جن کی کوئی آمدنی ہی نہیں ؟ اوپر سے مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بعض چیزوں کی قیمتیں پیرس جیسے شہروں سےبھی زیادہ ہیں۔ حالات برداشت کے قابل نہیں۔ ہم تقریباً 2 سال سے یہ سب کچھ جھیل رہے ہیں۔ جبری نقل مکانی، بے گھری، بمباری، مسلسل خوف اور قیمتیں بڑھانے والے لالچی تاجروں نے صورتحال ابتر کر دی ہے۔ یہ بوجھ اب عام آدمی کی برداشت سے باہر ہے۔ ہم بے بس ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اب کیا کریں۔”

زیادہ تر بینک بند ہونے اور معمول کا مالیاتی نظام تقریباً مفلوج ہو جانے کے باعث کئی شہری غیر رسمی بروکرز یا منی ٹرانسفر دفاتر کا رخ کر رہے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنی تنخواہیں یا ترسیلات حاصل کرنے کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔

دوسری جانب ناکہ بندی اور امداد کی ترسیل میں طویل انتظامی تاخیر کے باعث رشتہ داروں یا غیر سرکاری اداروں کی جانب سے امدادی کوششیں بھی بتدریج کم ہو گئی ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 3 (عربی): راویہ الاشی، رہائشی، غزہ

"ہمارے بچے جب روٹی مانگتے ہیں تو بھوک سے بلک بلک کر رو پڑتے ہیں ۔ صرف ایک دن گزارنے کے لئے ہمیں کم از کم 60 ڈالر درکار ہوتے ہیں۔ ایک کلو آٹا 30 ڈالر کا ملتا ہے اور وہ بھی کافی نہیں۔ مجھے اپنے خاندان کے لئے کم از کم 2 کلو آٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بینکوں کے کمیشن نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔ میری مجموعی تنخواہ 300 ڈالر ہے لیکن کٹوتیوں کے بعد مجھے صرف 170 ڈالر ملتے ہیں۔ اس سے میں بمشکل  آٹا اور دال ہی خرید سکتی ہوں۔ سبزیاں، پھل، اور دوسری اشیائے ضروریہ؟ یہ سب تو ایسے خواب بن چکے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہو سکتے۔”

تجارتی سرگرمیوں کے خاتمے اور سرحدوں کی بندش نے غزہ کو شدید معاشی جمود میں دھکیل دیا ہے جسے مقامی معاشی ماہرین  "سنگین کساد بازاری” قرار دے رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں جبکہ بیشتر چھوٹے کاروبار بمباری، ایندھن کی قلت یا رسد کا نظام تباہ ہونے کے باعث بند ہو چکے ہیں۔

غزہ کے ماہرِ معیشت سمیر ابو مدللہ نے شِنہوا کو بتایا کہ نقدی کی قلت اس وسیع تر معاشی بحران کا سب سے سنگین پہلو ہے۔

انہوں نے بینکاری نظام کی مکمل بندش، مغربی کنارے کے مالیاتی اداروں سے رابطے کے فقدان اور جاری  ناکہ بندی کے سبب عالمی ترسیلات کی معطلی کو اس بحران کی بنیادی وجہ قرار دیا۔

سیاسی حل کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی اور حالات مزید بگڑ رہے ہیں۔ انسانی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت تیزی سے کھو رہے ہیں۔

فلسطین کے این جی او نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشاوانے شِنہوا کو بتایا کہ انسانی امداد موجودہ ضروریات کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ ہم فوری طور پر امداد کی رسائی کو آسان بنانے اور شہریوں خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لئے عالمی تحفظ  کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ جنگ بندی کو ترجیح دی جائے اور سرحدی راستے کھولے جائیں تاکہ خوراک، ادویات اور ایندھن کی بروقت ترسیل ممکن ہو سکے۔

غزہ، فلسطین سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوائنٹس آن سکرین:

غزہ کی 23 لاکھ آبادی بدترین انسانی بحران کا شکار ہے

ناکہ بندی، مہنگائی اور مالی نظام کی تباہی نے عوام کو بے حال کر دیا

بینکنگ نظام کی معطلی اور ترسیلات کی بندش سے نقدی کی شدید قلت ہے

شہریوں کو بینکوں سے رقم نکالنے پر 50 فیصد تک کمیشن دینا پڑتا ہے

فلسطینی اتھارٹی کے ملازمین غیر رسمی ذرائع سے تنخواہیں نکال رہے ہیں

مہنگائی کی شرح پیرس جیسے شہروں سے بھی زیادہ ہو گئی ہے

کلو آٹے کی قیمت 30 ڈالر تک پہنچ گئی

غذائی قلت بڑھ رہی ہے جبکہ امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں

چھوٹے کاروبار بمباری، ایندھن کی قلت اور بندش سے تباہ ہو گئے

ماہرین معیشت غزہ کو سنگین کساد بازاری کی لپیٹ میں قرار دے رہے ہیں

امدادی اداروں نے ناکہ بندی کے خاتمے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!