الماتے(شِنہوا)ایک قازق ماہر نے کہا ہے کہ گلوبل ساؤتھ اب اس مقام سے نکل کر جا رہا ہے جہاں زیادہ تر بیرونی اثرات کے زیر اثر تھا، اب یہ عالمی ایجنڈے کو خود تشکیل دینے اور ترقی پر مباحثوں کے اصول طے کرنے لگا ہے۔
شِنہوا کے ساتھ ایک انٹرویو میں آستانہ میں چائنیز سٹڈی سنٹر کی ڈائریکٹر گلنار شائمر گینووا نے کہا کہ یہ تبدیلی موجودہ عالمی نظام کو بدلنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ کثیر قطبی نظام کی طرف بتدریج پیش رفت ہے، قازقستان سمیت درمیانی طاقتیں ایک زیادہ نمایاں کردار اختیار کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک اب گروپ آف 20 (جی 20) سربراہ اجلاس، ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مذاکرات اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں اصلاحات پر ہونے والے مباحثے جیسے فورمز کے اہم ایجنڈے پر بھی بتدریج بڑھتا ہوا اثر ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ متبادل فورمز، خاص طور پر برکس تیزی سے اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں اور ان کے بلاک کی توسیع ایک ایسا پلیٹ فارم پیدا کر رہی ہے جس کا اقتصادی وزن ان کے مطابق ترقی یافتہ معیشتوں کے روایتی گروپوں کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ برکس ترقی پذیر ممالک کو متبادل طریقہ کار کی پیشکش کرتا ہے تاکہ وہ خودمختار ترقیاتی انتخاب جیسے اصولوں کو آگے بڑھا سکیں اور دنیا اور شراکت داروں کے ساتھ تعاون برقرار رکھتے ہوئے ثقافتی تنوع کا احترام کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ قازقستان کے لئے برکس ایک جامع کثیر قطبی ڈھانچےکے بنیادی ستون کے طور پر کام کر رہا ہے، شمال-جنوب اور مشرق-مغرب کے تعلقات کو مستحکم کر رہا ہے اور عالمی نظم ونسق میں درمیانی طاقتوں کو زیادہ جگہ فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے عالمی جنوب کی اقتصادی ترقی کے پیچھے بنیادی ساختی عوامل کے طور پر آبادی میں اضافہ، صنعتی ترقی اور ڈیجیٹل تبدیلی کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ رجحانات مسابقت کو بڑھا رہے ہیں اور صارفین کے بازار کو وسیع کر رہے ہیں۔




