چین کے مشرقی صوبہ فوجیان کے شہر ژانگ ژو میں ژانگ ژو جوہری بجلی گھر کے پہلے پیداواری یونٹ (دائیں طرف) کا فضائی منظر-(شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا)چین نے حال ہی میں ساحلی علاقوں میں 10 نئے جوہری ری ایکٹرز کی منظوری دے دی ہے، جس سے عالمی سطح پر جوہری توانائی میں دوبارہ بڑھتی دلچسپی کے دوران ایٹمی توانائی کے فروغ میں تیزی آئے گی۔
یہ اقدام 2030 سے پہلے کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور 2060 تک کاربن کے مکمل خاتمے کے حصول کے لئے اپنے بلند پایہ موسمیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ملک کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
8 نئے ری ایکٹرز مقامی طور پر ڈیزائن کردہ ہوالونگ ون کو استعمال کریں گے، جو تیسری نسل کا دباؤ والا پانی کا ری ایکٹرہے۔ باقی 2 یونٹس سی اے پی 1000 ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے جو ویسٹنگ ہاؤس اے پی 1000 سے اخذ کی گئی ہے۔
چین اس وقت 58 جوہری ری ایکٹرز چلا رہا ہے اور مزید 44 کی تعمیر کر رہا ہے، جس سے مجموعی طور پر تنصیبات کی تعداد 102 ہوجائے گی۔ اس رفتار سے چین 2030 تک دنیا کا سب سے بڑا جوہری بجلی گھر چلانے والا ملک بن جائے گا اور دیگر تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دے گا، ملک تقریباً 113 گیگا واٹ کی ممکنہ پیداواری صلاحیت کی نمائندگی رکھتا ہے۔
چائنہ اٹامک انرجی اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیو جِنگ کے مطابق چین اپنے 15 ویں 5 سالہ منصوبے (2026-2030) کے دوران 100 سے زائد آپریشنل کمرشل نیوکلیئر پاور یونٹس کے ساتھ عالمی سطح پر واحد ملک بننے کے لئے تیار ہے۔
نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن (این ای اے) کے مطابق 2024 میں ملک کی جوہری توانائی کی پیداوار 450 ارب کلو واٹ آور تک پہنچ گئی، جس سے معیاری کوئلے کے استعمال میں 14کروڑ ٹن کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 37کروڑ ٹن کی کمی ہوئی۔
این ای اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر حہ یانگ نے کہا کہ جوہری توانائی کی ترقی چین کی توانائی کی سلامتی کی حکمت عملی کا ایک لازمی ستون ہے اور ماحول دوست، کم کاربن توانائی کی منتقلی کے حصول کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
