غزہ کے مغرب میں تل الہوا میں 49 سالہ فلسطینی کسان اکرم ابو خوصہ اور اس کے بچے اپنے تباہ شدہ گھر میں موجود ہیں-(شِنہوا)
غزہ(شِنہوا)غزہ شہر کے مغرب میں تل الہوا میں 49 سالہ فلسطینی کسان اکرم ابو خوصہ اکثر اپنی بالکونی میں خاموشی سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہاتھ میں موبائل لئے ماضی کے اپنے سٹرابری کے خوشحال کھیتوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھتے ہیں۔
6 بچوں کے والد ابو خوصہ نے شِنہوا کو بتایا کہ 2 سال پہلے تک میں ہر صبح کھیتوں کی تازہ ہوا میں سانس لیتا تھا لیکن اب میں اپنے اردگرد صرف تباہی دیکھنے پر مجبور ہوں اور اپنے کھیتوں کو صرف تصویروں اور ویڈیوز میں یاد کرتا ہوں۔
بیت لاحیہ میں واقع ابو خوصہ کا خاندانی فارم جدت کی مثال تھا۔ انہوں نے اپنے بھائیوں کی مدد سے غزہ میں پہلا جھولتا ہوا سٹرابری فارم قائم کیا تھا جو ہر سال تقریباً 37 ٹن پھل پیدا کرتا تھا۔
ابو خوصہ نے افسوس سے کہا کہ اب وہ کھیت کھنڈر بن چکے ہیں۔ اسرائیلی سرحد سے صرف 2 کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باعث ان کا فارم جنگ کے آغاز میں ہی تباہ کر دیا گیا۔ اسرائیلی بمباری نے نہ صرف فصلیں اور گرین ہاؤس تباہ کئے بلکہ ان کے 3 خاندانی مکانات بھی مکمل طور پر تباہ کئے۔
ابو خوصہ کا خاندان بھی ہزاروں دیگر خاندانوں کی طرح جنوبی غزہ میں بے دخل ہوگیا جہاں وہ اب 35 رشتہ داروں کے ساتھ تنگ اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے ان 18 مہینوں کے دوران میں نے ایک دن کے لئے بھی اپنی زمین کو نہیں بھلایا۔ ہم نے اسی زمین سے گزر بسر کی اور عزت بنائی۔ اب میں صرف زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
حماس کے زیر انتظام چلنے والی غزہ کی زرعی اتھارٹی کے ترجمان محمد ابو عودہ کے مطابق اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ابو خوصہ جیسے 55 ہزار سے زائد کسانوں نے اپنی زمینیں کھو دی ہیں۔
