اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی بنیاد ایک خط ہے جس نے پورا نظام بدل کررکھ دیا ہے،آئینی ترمیم فل کورٹ بینچ ہی سنے گا، یہ مسئلہ عوام اور نظام کی بقا کیلئے حل ہو گا،قانون کی درست تشریح سے ہی ہم پاکستان کو ترقی کی منازل پر دیکھ سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مجھے آج بار نے صرف چائے پلانے کیلئے مدعو کیا تھا، پھر مجھے کہا گیا آپ نے کچھ وکلاء کو صرف سرٹیفکیٹ دینے ہیں، پھر یہاں آکر بتایا کہ وہ سرٹیفکیٹ صرف 60ہیں، مزید پتا چلا کہ یہاں تو میڈیا بھی ہے ، اس موقع پر ہال میں قہقہے لگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے متعلق جو تعریفی کلمات کہے گئے، میں خود کو اس کے قابل نہیں سمجھتا، میری والدہ نے کہا تھا کہ کوئی تمہیں چڑھائے تو مغرور نہ ہو جانا۔انہوں نے مضبوط میڈیا پر زور دیا جو لوگوں کے سامنے ہر چیز رکھے اور مضبوط بار جس سے ججز منتخب کئے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ آزاد جج چاہئیں جو عدلیہ کا تقدس برقرار رکھیں، لوگوں کی امید آج عدلیہ، پارلیمان اور میڈیا سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد اسلام آباد سے ڈیپوٹیشن پر آئے ججز کو واپس بھیجیں گے ، ہم اپنے اسلام آباد کے ہی ججز کو یہاں تعینات کریں گے، جو فریش تعیناتیاں ہوئیں، وہ بھی اسلام آباد سے ہوں گی۔انہوںنے کہا کہ یہ امیج بنا ہوا ہے کہ باہر سے ججز یہاں تعینات ہو جاتے ہیں اور یہاں کے ججز کا حق ختم ہو جاتا ہے ، ہونا تو یہ چاہئے کہ جو جج تعینات ہو وہ اسلام آباد بار سے ہو۔
انہوں نے کہا کہ جو جدوجہد اسلام آباد ہائیکورٹ بار کونسل اور ایسوسی ایشن کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ قانون کی درست تشریح سے ہی پاکستان کو ترقی کی منازل پر دیکھ سکتے ہیں، چاہے 26ویں آئینی ترمیم ہی ہو، آپ کو اپنے اداروں سے مایوس نہیں کر سکتے،اس طرح کے مراحل پاکستان کی تاریخ میں آتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک خط نے پورے ملک کے نظام کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، 26ویں آئینی ترمیم ایک خط کی بنیاد پر کی گئی ہے، میرا خیال ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کو بالآخر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ ہی سنے گا، یہ ایشو پاکستان کے عوام اور نظام کی بقاء کیلئے حل ہو گا۔
