چین کے جنوبی گوانگ شی ژوانگ خودمختار علاقے کےشہر نان نگ میں تھائی لینڈ سے درآمد کردہ پھلوں کی نمائش کی جارہی ہے -(شِنہوا)
بیجنگ (شِنہوا) علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑے آزاد تجارتی معاہدہ ہے جو 3 برس میں اقتصادی انضمام کی قوت بن چکا ہے اس نے ثابت کیا ہے کہ تعاون تنہائی نہیں بلکہ مشترکہ خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔
2.3 ارب افراد پر مشتمل اس بڑے تجارتی معاہدے نے علاقائی معاشی ترقی میں تبدیلی کا مظاہرہ کیا۔ تجارتی آزادی میں اضافہ ہوا اور رکن ممالک کے درمیان گہرے انضمام کو فروغ دیا۔
علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری 15 ممالک پر مشتمل ہے جس میں جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم کے 10 ممالک سمیت چین،جاپان،جنوبی کوریا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
اس کی کامیابی تجارتی رکاوٹیں کم کرنے ، معیارات کو ہم آہنگ کرنے اور جامع اقتصادی خطے بنانے پر توجہ مرکوز کرنے میں مضمر ہے۔
گزشتہ 3 برس کے دوران رکن ممالک کے درمیان 90 فیصد سے زائد سامان پر ٹیکس بتدریج ختم ہوگیا یا ان میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے جس سے کاروبار اور صارفین کو لاگت میں بچت کی صورت میں سہولت ملی۔
چین نے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کی سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے معاہدے کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
تجارتی آزادی اور کھلی منڈیوں کے لئے چین کے عزم نے شراکت داری کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔
چین نے گزشتہ 3 برس کے دوران نہ صرف علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کی ہے بلکہ بنیادی سہولیات اور ڈیجیٹل تجارت میں سرمایہ کاری کرکے علاقائی تعاون کو بھی فعال انداز میں فروغ دیا۔
