ہیڈ لائن:
چین کی ویزا فری پالیسی قابل تحسین ہے۔ سابق ڈپٹی سپیکر، کروشیا
جھلکیاں:
کروشیا کے سابق ڈپٹی سپیکر نے چین کی ویزا فری پالیسی کو سراہا ہے۔ وہ اسے چین اور کروشیا کے تعلقات کے حوالے سے نہایت خوش آئند سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ مزید کیا کہتے ہیں؟ آئیے اس کی تفصیل اس ویڈیو میں جانتے ہیں۔
شاٹ لسٹ:
1۔ ڈیوورکو ویڈووک کے مختلف مناظر
2۔ ساؤنڈ بائٹ 1 (کروشین): ڈیوورکو ویڈووک، سابق ڈپٹی سپیکر، کروشین پارلیمنٹ
3۔ ڈیوورکو ویڈووک کے خطاب کرتے ہوئے مختلف انداز
4۔ ساؤنڈ بائٹ 2 (کروشین): ڈیوورکو ویڈووک، سابق ڈپٹی سپیکر، کروشین پارلیمنٹ
تفصیلی خبر:
کروشین پارلیمنٹ کے سابق ڈپٹی سپیکر ڈیوورکو ویڈووک نے چین کی ویزا فری پالیسی کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا ہے کہ یہ پالیسی کروشیا اور چین کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں استحکام لائے گی اور کروشیا کے زیادہ سے زیادہ شہری چین کے سفر کی طرف راغب ہوں گے۔
30 نومبر 2024 سے 31 دسمبر 2025 تک 9 ممالک کے عام پاسپورٹ رکھنے والے شہری تجرباتی بنیادوں پر چین میں ویزا فری داخلے کے اہل تصور ہوں گے۔ ان 9 ممالک میں بلغاریہ، رومانیہ، کروشیا، مونٹی نیگرو، شمالی مقدونیہ، مالٹا، ایسٹونیا، لیٹویا اور جاپان شامل ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (کروشین): ڈیوورکو ویڈووک، سابق ڈپٹی اسپیکر، کروشئن پارلیمنٹ
’’میں عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ نہایت خوش آئند اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو مستحکم کرنے کا ایک موقع ہے۔ اس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی سطح پر پہلے سے فروغ پذیر تعلقات میں بڑی بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر بھی ضرور کروں گا کہ کروشیا کی متعدد اور انتہائی اہم کمپنیاں پہلے سے ہی چین میں کام کر رہی ہیں۔ اب اس فیصلے سے یقینی طور پر عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کاروباری معاملات میں ایک اہم سہولت ملے گی۔‘‘
ویڈووک سال 2000 سے سال 2003 تک محنت اور سماجی بہبود کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سال 2005 میں وہ سائساک کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چین کی ثقافت، فلسفے اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہمیشہ متاثر ہوئے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (کروشین): ڈیوورکو ویڈووک، سابق ڈپٹی اسپیکر، کروشئن پارلیمنٹ
’’ میں 6 بار عوامی جمہوریہ چین آیا ہوں۔ پہلی بار تقریباً 30 سال پہلے میں یہاں آیا تھا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہر دورے میں مجھے اس ملک کی دلچسپ ترقی کے حوالے سے نہایت نئی معلومات اور تجربات حاصل ہوئے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس ملک نے تمام شعبوں میں ترقی کی ہے۔ اپنے آخری دورے میں بیجنگ کے علاوہ میں نے ہیفے شہر کا بھی سفر کیا تھا جہاں ہم نے جدت پسندی کے مراکز کا دورہ کیا۔ چین اب ٹیکنالوجی کے محاذ پر، خاص طور پر مصنوعی ذہانت، مواصلات اور نقل و حمل کے شعبوں میں جو کام کر رہا ہے، وہ جدید ترین ٹیکنالوجی واقعی متاثرکن ہے۔ ہمیں بیجنگ سے شنگھائی تک ٹرین پر سفر کرنے کا بھی موقع ملا۔ یہاں ٹرین کی رفتار سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ آپ یہ سب کچھ دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں دیکھ سکتے۔ خاص طور پر وہ رفتار، وہ ترقی اور زندگی گزارنے کا ان کا انداز۔‘‘
زغرب سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link