برطانیہ کے وسطی علاقے اسٹریٹ فورڈ اپون ایون کے قلب میں دنیا کی سب سے بڑی ادبی شخصیات میں سے ایک کی کہانی آج بھی زندہ ہے۔ اس شخصیت کا نام ولیم شیکسپیئر ہے۔
یہ لکڑی کے ڈھانچے پر بنا ہوا ٹیوڈر طرز کا گھر ہی دراصل وہ مقام ہے جہاں سال 1564 میں شیکسپیئر پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نےاپنا بچپن بھی یہیں گزارا ۔ یہ مکان برطانیہ کے اولین ادبی ورثہ کے مقامات میں سے ایک ہے۔ 19ویں صدی سے لے کر آج تک، دنیا کے کونے کونے سے لوگ اسے دیکھنے یہاں آتے رہے ہیں۔
آجکل اس گھر کی دیکھ بھال’ شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ‘ کے سپرد ہے۔
ڈاکٹر پال ایڈمنڈسن،’ شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ‘ میں تحقیقی شعبے کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے شیکسپیئر کی زندگی کے حوالے سے ہماری رہنمائی کی۔ انہوں نےاس گھر کی تاریخ، شیکسپیئر کے کام اور موجودہ دور سے ان کے تعلق کو اجاگر کیا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): پال ایڈمنڈسن، سربراہ شعبہ تحقیق، شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ
’’ شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ سال 1847 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ملک میں ادبی پس منظر رکھنے والا سب سے پہلا مکان تھا۔ ہم دنیا بھر سے یہاں آنے والے ہزاروں لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ تو خاص طور پر ہم کام کرتے ہیں تاکہ وہ شیکسپیئر کی زندگی اور ان کے کام سے رہنمائی حاصل کریں۔‘‘
شیکسپیئر کی جائے پیدائش کی دوسری منزل پر ایک کھڑکی بھی موجود ہے۔ یہ کھڑکی ہمیں ایک ایسی کہانی سناتی ہے جس سے متعلق بہت کم جانا جاتا ہے۔ یہ کھڑکی شیشے پر لکھے ناموں کے ساتھ اُن لوگوں کی یاد دلاتی ہے جو صدیوں سے یہاں آتے رہے اور اپنا نشان چھوڑ گئے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): پال ایڈمنڈسن، سربراہ شعبہ تحقیق، شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ
’’ ہم اس حصے کی طرف چلتے ہیں، کیونکہ یہ کھڑکی ایک بہت اہم کہانی سناتی ہے۔ اگر آپ 1800 کی دہائی میں یہاں آتے، تو آپ کو ایک ہیرا دیا جاتا جس سے آپ شیشے پر اپنا نام لکھ سکتے۔ یہاں شیشے پر کچھ مشہور نام بھی ہیں جیسے سر ہنری اِروِنگ۔ ہنری اِروِنگ وہ پہلے انگریز اداکار تھے جنہیں ’سر‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت ہی خاص اور قیمتی کھڑکی ہے جسے بڑی احتیاط سے محفوظ کیا گیا ہے۔‘‘
شیکسپیئر کا گھر صرف ایک خاموش سی نمائش گاہ نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا تھیٹر ہے۔ جائے پیدائش کے باغ میں اداکار شیکسپیئر کے کلاسیکی ڈراموں کے مناظر پیش کئے جاتے ہیں۔
23 اپریل شیکسپیئر کی سالگرہ کا دن ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی یوم مطالعہ بھی ہے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ کو بلند آواز میں پڑھنے سے ان کی یاد تازہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے ایک تعلق کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): پال ایڈمنڈسن، سربراہ شعبہ تحقیق، شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ
’’ ہونا یا نہ ہونا ہی تو اصل سوال ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 4 (انگریزی): پال ایڈمنڈسن، سربراہ شعبہ تحقیق، شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ
’’ یہ واقعی خوشی کی بات ہے کہ ہم شیکسپیئر کے گھر میں بیٹھ کر ان کی لکھی انگریزی پڑھ رہے ہیں۔ انہیں یاد کررہے ہیں، خوشی منا رہے ہیں اور اس لمحے کو خاص بنا رہے ہیں۔ شیکسپیئر کے کام کا چینی زبان میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ میں خود تو چینی زبان نہیں پڑھ سکتا لیکن میں ان ترجمہ کرنے والوں کی دل سے قدر کرتا ہوں جو بڑی محنت اور لگن سے ایک مشکل زبان کو سمجھتے ہیں اور پھر اس کے مفہوم کو اپنی زبان میں ایک نئی روح کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔‘‘
شیکسپیئر کے اثرات سرحدوں کی قید سے بالاتر ہیں۔ وہ اور چین کے منگ دور کے ڈرامہ نگار تانگ شیان زو، ایک ہی برس فوت ہوئے تھے۔ دونوں کی تحریروں میں محبت اور تقدیر کے موضوعات مشترک ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 5 (انگریزی): پال ایڈمنڈسن، سربراہ شعبہ تحقیق، شیکسپیئر برتھ پلیس ٹرسٹ
’’ تانگ شیان زو کو ’پیونی پیویلین‘ کے مصنف کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس میں رومیو اور جولیٹ جیسی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔
یہ واقعی حیران کن بات ہے۔ سال 1500 کے آخر اور سال 1600 کے آغاز پر دنیا بھر میں ادبی ترقی ہو رہی تھی۔ اس وقت چین اور برطانیہ کے لوگ ایک جیسے موضوعات کی کہانیاں سننا چاہتے تھے۔ اسی بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔‘‘
شیکسپیئر کے کام کبھی ایک ہی شکل میں محدود نہیں رہے۔ ان کے ڈرامے بار بار نئے انداز میں ڈھالے گئے اور تخلیق کئےگئے۔ اس طرح وہ ہر دور میں اُس زمانے کی روح کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے رہے ہیں۔
لندن سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link