بیجنگ:ایک پاکستانی ماہر نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے خدمات میں اپنی تجارت کو کھولنے کا اقدام غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بہت سے مواقع پیش کرتا ہے جس سے عالمی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ پہنچانے والی تحریک پیدا ہوئی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈپلومیٹک سٹڈیز کی صدر فرحت آصف نے شِنہوا کو بتایا کہ چین رکاوٹوں کو ختم کرنے اور اپنی وسیع اور متحرک مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ غیر ملکی کمپنیاں ایک ایسے ملک میں رسائی حاصل کرنے کے بے مثال مواقع حاصل کر رہی ہیں جو تیزی سے اعلی درجے کی خدمات اور ڈیجیٹل جدت طرازی کا عالمی مرکز بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدمات میں سرحد پار تجارت کے لئے قومی سطح کی منفی فہرست کا نفاذ کرکے چین نے غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے اپنی مارکیٹ میں داخل ہونے اور کام کرنے کی رکاوٹوں کو نمایاں طور پر کم کردیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس پالیسی نے زیادہ مسابقتی اور متحرک ماحول کو فروغ دیا ہے اور بین الاقوامی خدمات فراہم کنندگان کی متنوع رینج کو راغب کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کی طرف سے مصنوعی ذہانت (اے آئی)، بگ ڈیٹا اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو اپنے خدمات کے شعبے میں ضم کرنے کی مہم سے ان شعبوں میں مہارت رکھنے والی غیر ملکی کمپنیاں ترقی اور تعاون کے لئے زرخیز زمین تلاش کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 72/144 گھنٹے ویزا فری ٹرانزٹ پالیسی میں توسیع اور متعدد ممالک کے ساتھ ویزا فری معاہدوں کے نفاذ جیسے اقدامات نے سیاحت اور سفر سے متعلق خدمات کو مزید فروغ دیا ہے۔
چین کے کھلے پن کے عزم کے ثبوت کے طور پر انہوں نے حال ہی میں منعقد ہونے والے چین کی خدمات کی تجارت کے بین الاقوامی میلہ (سی آئی ایف ٹی آئی ایس) 2024 کی ایک منفرد پلیٹ فارم کے طور پر نشاندہی کی جہاں مختلف ممالک اور کاروباری اداروں کو بل بیٹھ کر خیالات کا تبادلہ کر نے اور عالمی ترقی کے لئے تیزی سے اہم شعبے میں نئی شراکت داری قائم کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے کہا کہ سی آئی ایف ٹی آئی ایس کے ذریعے چین نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور دوسرے ممالک کو باہمی فائدہ مند تعاون میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
فرحت آصف نے کہا کہ پاکستان جو اپنے ڈیجیٹل ڈھانچے کو جدید بنانے اور عالمی ڈیجیٹل معیشت میں مکمل طور پر ضم ہونے کا خواہاں ملک ہے، مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا اور ای کامرس میں چین کی ترقی اسے بہت سے مواقع پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی خدمات کی تجارت کو کھول کر چین ایک زیادہ باہم مربوط اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والی عالمی مارکیٹ کو فروغ دے رہا ہے۔ اس طرح کے کھلے اقدامات نہ صرف اشیاء اور خدمات کے تبادلے کو فروغ دیتے ہیں بلکہ علم اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو بھی آسان بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعاون اور مسابقت عالمی جدت طرازی کو فروغ دے سکتی ہے، پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر سکتی ہےاور بالآخر زیادہ متوازن اور لچکدار عالمی معیشت میں حصہ ڈال سکتی ہے۔
