باکو(شِنہوا)جارجیا کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ جاپانی وزیراعظم سنائی تاکائیچی کے چین کے تائیوان سے متعلق حالیہ بیانات اور جاپان کا دوبارہ تیزی سے بڑھتا ہوا عسکری ایجنڈا نہ صرف بین الاقوامی قانون سے متصادم ہیں بلکہ خطے کی سلامتی کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔
جارجیا میں چین-جنوب مشرقی ایشیا ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر بیکا نیٹس ویلش ویلی نے شِنہوا کو دیئے گئے ایک تحریری انٹرویو میں کہا ہے کہ بین الاقوامی قانونی دستاویزات چین کی تائیوان پر خودمختاری کو واضح طور پر تسلیم کرتی ہیں۔ تاکائیچی کے غلط اور اشتعال انگیز بیانات واضح طور پر بین الاقوامی قانون سے متصادم ہیں۔
1943کے قاہرہ اعلامیہ اور 1945 کے پوٹس ڈیم اعلامیہ کے مطابق جاپان کو تائیوان سمیت چین سے لئے گئے تمام علاقوں کو واپس کرنا ضروری تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 2758 واضح طور پر عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو پورے چین کی نمائندگی کرنے والی واحد قانونی حکومت تسلیم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تائیوان سے متعلق تاکائیچی کے بیانات چین اور جاپان کے درمیان موجود 4 اہم سیاسی دستاویزات خصوصاً 1972 کے چین-جاپان مشترکہ اعلامیہ سے متصادم ہیں۔
نیٹس ویلش ویلی نے کہا کہ خطے اور دنیا بھر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے جاپان امریکہ کے ساتھ قریبی اتحاد میں دوبارہ عسکریت پسندی کی طرف قدم بڑھا کر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کو روکنے کی جاپانی حکومت کی موجودہ کوشش ملک میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جس کے ساتھ ساتھ دوسری جنگ عظیم کے دوران سامراجیت، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مظالم کے ماضی کے بوجھ سے آزادی حاصل کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔
نیٹس ویلش ویلی نے کہا کہ اس کے علاوہ جاپان دوبارہ اپنے عسکری ایجنڈے کو تیز کر رہا ہے جس میں اپنے آئین کے آرٹیکل 9 میں ترمیم کی کوشش، تائیوان کے قریب جزیروں پر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نصب کرنے کی منصوبہ بندی اور اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ شامل ہے۔
چین امن اور ترقی کے لئے پرعزم ہے اور ایک زیادہ پرامن دنیا کی تعمیر میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔



