جرمنی کے شہر برلن میں جان رابے کی قبر پر ان کے پڑپوتے کریسٹوف رین ہارڈٹ حاضری دے رہے ہیں۔(شِنہوا)
برلن(شِنہوا)ایک جرمن شہری جان رابے جنہیں 1937 کے نان جنگ قتل عام کے دوران ہزاروں چینی شہریوں کی حفاظت کے لئے یاد کیا جاتا ہے، کے پڑپوتے کرسٹوف رین ہارڈٹ نے کہا ہے کہ یاد رکھنا محض غور و فکر کا عمل نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔
62 سالہ کرسٹوف رین ہارڈٹ نے شِنہوا کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ اگر ہم ماضی کو بھلا دیتے ہیں تو ہم اس سے بڑھنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ انہوں نے تاریخی یادداشت کو مستقبل کے تشدد کے خلاف ایک ڈھال قرار دیا۔
13 دسمبر 1937 کو جاپانی شاہی فوج نے نان جنگ پر قبضہ کیا۔ حملہ آوروں نے اس کے بعد بڑے پیمانے پر قتل عام، جنسی تشدد اور دیگر مظالم کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں 6 ہفتوں کے دوران تقریباً 3 لاکھ چینی شہری اور غیر مسلح فوجی مارے گئے۔ نان جنگ قتل عام دوسری جنگ عظیم کے سب سے وحشیانہ واقعات میں سے ایک ہے۔
نان جنگ میں اس وقت سیمنز کے نمائندے رابے نے دوسرے غیر ملکیوں کی مدد سے ایک بین الاقوامی حفاظتی زون کا اہتمام کیا جس میں 1937 اور 1938 کے درمیان تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار چینی لوگوں کو بچایا گیا۔ قتل عام کے دوران انہوں نے ڈائری لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا جو بعد میں جاپانی جارحوں کی جانب سے کئے گئے مظالم کے سب سے جامع تاریخی ریکارڈ میں سے ایک بن گئی۔
رین ہارڈٹ نے ایک ڈائری کی انٹری کو یاد کیا جو انہیں آج بھی پریشان کرتی ہے۔ رابے نے جاپانی افواج سے نان جنگ کے شن جی کو سکوائر میں ایک دھاتی بیڈ فریم پر چھوڑی گئی لاش کو دفن کرنے کی درخواست کی۔ کئی دن گزر گئے جب لاش سڑنے لگی اور جانوروں نے اسے کھایا پھر بھی تدفین سے بار بار انکار کیا گیا۔
رین ہارڈٹ نے استفسار کیا کہ آخر کوئی کیسے اتنا بے حس ہو سکتا ہے کہ مردہ کے لئے کچھ محسوس نہ کرے۔
رابے کے پڑپوتے نے کہا کہ ان ڈائریوں میں صرف خوف ہی نہیں بلکہ امید بھی درج ہے۔ قتل، عصمت دری، لوٹ مار اور تباہی کے تربیت یافتہ مسلح فوجیوں کے سامنے رابے اور ان کے ساتھی غیر مسلح کھڑے رہے اور نان جنگ کے لوگوں کی حفاظت کی۔

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link