بدھ, ستمبر 10, 2025
انٹرنیشنلچین کے ساتھ تعاون آسیان کی اگلی ٹیکنالوجی ترقی کے لئے معاون...

چین کے ساتھ تعاون آسیان کی اگلی ٹیکنالوجی ترقی کے لئے معاون ہوگا، ملائیشین تجزیہ کار

ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں خزانہ تحقیقی ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر یِن شاؤ لونگ شِنہوا کو انٹرویو دے رہے ہیں-(شِنہوا)

کوالالمپور(شِنہوا)ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم (آسیان) کے رکن ممالک چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دے کر اگلی ٹیکنالوجی ترقی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ یہ شمالی ہمسایہ ملک نہ صرف ماحول دوست ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل جدت میں بڑی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے بلکہ ایک قابل اعتماد شراکت دار بھی ثابت ہوا ہے۔

خزانہ تحقیقی ادارے کے تحقیقاتی شعبے کے نائب ڈائریکٹر یِن شاؤ لونگ نے شِنہوا کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ یہ تعاون نہ صرف خطے کی ترقیاتی خواہشات کو آگے بڑھانے میں مدد دے گا بلکہ علاقائی انضمام کو بھی مضبوط کرے گا اور ایسی اندرونی لچک پیدا کرے گا جو دنیا میں بعض قوتوں کی جانب سے پیدا کی گئی رکاوٹوں کا مقابلہ کرسکے۔

یِن شاؤ لونگ نے نشاندہی کی کہ آسیان پہلے ہی ڈیجیٹل تبدیلی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ شراکت داری خطے کی صلاحیت کو مضبوط کرے گی تاکہ وہ تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی معیشت سے ہم آہنگ ہو سکے۔

انہوں نے تجویز دی کہ چین کے ساتھ آسیان کا جغرافیائی تعلق اسے ایک معاشی پس منظر کے طور پر کام کرنے کا موقع دیتا ہے جو چین اور آسیان دونوں میں طلب کو بڑھا سکتا ہے اور دونوں منڈیوں اور تجارتی شراکت داروں کے طور پر ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔

ملائیشیا کی ریاست سیلانگور کے شہر کلانگ میں کلانگ بندرگاہ آزاد علاقے کا منظر-(شِنہوا)

یِن شاؤ لونگ نے وضاحت کی کہ چین کے پاس نئی ٹیکنالوجیز خاص طور پر شمسی توانائی، برقی گاڑیوں (ای وی) اور بیٹریز میں پہلے ہی برتری ہے اور آسیان کو اس سے فائدہ ہوگا کیونکہ یہ مصنوعات اور ان کی صنعتی سپلائی چینز پورے خطے میں پھیل رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماحول دوست ٹیکنالوجیز کے حوالے سے خاص طور پر شمسی توانائی، برقی گاڑیوں اور بیٹریز میں چین عالمی رہنماؤں میں شامل ہے۔ یہ مستقبل کی اہم ٹیکنالوجیز ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے حال ہی میں چین کے ایک دورے میں چینی ترقی کی وسعت کو خود دیکھا ہے۔

یِن شاؤ لونگ نے کہا کہ میرے خیال میں چین کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کس طرح ان ٹیکنالوجیز کو دنیا بھر میں خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں پائیدار طریقے سے پھیلایا جائے اور انہیں آسانی سے کیسے قابل رسائی بنایا جائے۔ ہم پہلے ہی کچھ ایسا دیکھ رہے ہیں جو پیداواری شراکت داری کے ذریعے ہو رہا ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!