جنوب مغربی غزہ سٹی کے تباہ شدہ علاقے تلّ الهوٰی میں اسرائیل کی چھوڑی ہوئی ایک بکتر بند گاڑی آج ایک غیر معمولی مقصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ سرخ کپڑے پر لکھا ہوا "چارجنگ اسٹیشن” کا بورڈ اس پر لٹک رہا ہے۔ یہ گاڑی اب اس علاقے میں بجلی کا وہ نایاب ذریعہ بن گئی ہے جو دو برس سے زیادہ عرصے سے مسلسل جنگ کے باعث مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔
27 سالہ یحییٰ خزیق جو حالیہ اسرائیلی کارروائیوں کے دوران جنوبی علاقے کی طرف ہجرت کے بعد دوبارہ شمالی غزہ لوٹ آئے تھے اپنی تباہ شدہ بستی میں چلتے ہوئے اس گاڑی تک پہنچے۔ ان کا گھر مکمل طور پر برباد ہو چکا تھا اور ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی پناہ کی تلاش میں تھے اور روزگار کا کوئی ذریعہ ڈھونڈ رہے تھے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (عربی): یحییٰ خزیق، چارجنگ اسٹیشن چلانے والا غزہ کا رہائشی
“ملک میں موجود تمام مشکلات سے ہٹ کر میں نے روزگار کے کسی ذریعے کی تلاش شروع کر دی۔ مجھے تل الهوٰی کے علاقے میں یہ فوجی گاڑی ملی۔ یہ بکتر بند گاڑی جنگ کے دوران لڑائی والے علاقوں تک سپاہیوں کو محفوظ طریقے سے پہنچانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ میں نے اسے اپنے چھوٹے سے کاروبار میں تبدیل کر دیا۔ میں نے ایک ہفتہ اس کی صفائی اور اسے گاہکوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیاری میں صرف کیا۔ اس طرح میں نے اپنا منصوبہ شروع کرتے ہوئے تل الهوٰی میں موبائل فون چارجنگ پوائنٹ قائم کیا تاکہ علاقے میں زندگی کی رمق دوبارہ لوٹ سکے۔”
انہوں نے شمسی پینلز اور مقامی دستیاب مواد استعمال کرتے ہوئے 9 میٹر لمبی اور 60 ٹن وزنی اس بکتر بند گاڑی کو موبائل فونز کے لئےشمسی توانائی سے چلنے والے چارجنگ اسٹیشن میں تبدیل کر دیا۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (عربی): یحییٰ خزیق، چارجنگ اسٹیشن چلانے والا غزہ کا رہائشی
“میں نے اپنا منصوبہ شمسی پینلز استعمال کرتے ہوئے شروع کیا تاکہ بجلی کا متبادل ذریعہ میسر ہو۔ وجہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں بجلی نہیں ہے۔ میں ایسا ذریعہ معاش تلاش کر رہا ہوں جو مجھے کامیاب انسان بنا سکے۔ ہمیں امید ہے کہ زندگی پہلے جیسی ہو جائے گی یا ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی بہتر ہو جائے۔ میں نے یہ منصوبہ اس لئے شروع کیا تاکہ اپنا روزمرہ کا گزارا کر سکوں۔”
تل الهوٰی، جو کبھی بلند و بالا عمارتوں والا جدید علاقہ ہوا کرتا تھا، کم از کم پانچ بڑے اسرائیلی فوجی حملوں کا سامنا کر چکا ہے۔ بمباری کے نتیجے میں اس کا زیادہ تر حصہ کھنڈر بن گیا ہے۔ غزہ کے صحت حکام کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 70 ہزار 117 فلسطینی جاں بحق اور ایک لاکھ 70 ہزار 999 زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بے گھر ہونے والے خاندانوں کا شمار ممکن نہیں جبکہ علاقے میں بنیادی شہری سہولیات کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (عربی): یحییٰ خزیق، چارجنگ اسٹیشن چلانے والا غزہ کا رہائشی
“یہ منصوبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ میں نے ان فوجی گاڑیوں کی وجہ سے کتنا کچھ کھو دیا۔ میں نے اپنے والد، والدہ، بھائی اور بہنیں سب کھو دئیے۔ میرا پہلا گھر اور دوسرا گھر دونوں تباہ ہو گئے۔ میں نے خوف، محرومی اور نقصانات کا سامنا کیا ۔ میں ہر اس چیز سے محروم ہو چکا ہوں جو میری ملکیت تھی۔ اسی لئے میں نے فیصلہ کیا کہ نئی زندگی شروع کروں اور وقار کے ساتھ جیوں، ایسی حقیقت میں جو غزہ کی پٹی میں ہمارے روزمرہ کے حالات سے مختلف ہو۔”
غزہ بھر میں بجلی کی شدید قلت کے باعث کھلے مقامات پر چارجنگ پوائنٹس عام ہو چکے ہیں لیکن بہت کم ایسے ہیں جو خزیق کے منصوبے کی علامتی اہمیت رکھتے ہوں۔
ساؤنڈ بائٹ 4 (عربی): محمد سکیک، غزہ کا رہائشی
“غزہ کی پٹی میں جاری بجلی کی بندش کے دوران اس نوجوان نے اسرائیلی بکتر بند گاڑی کو استعمال میں لا کر اسے چارجنگ پوائنٹ میں تبدیل کر دیا۔ ہم یہاں اپنے فون چارج کرنے آتے ہیں کیونکہ یہاں بجلی کا کوئی اور ذریعہ موجود نہیں۔ اس نے یہ منصوبہ شروع کیا جو فلسطینی عوام کی ثابت قدمی کی عکاسی کرتا ہے، بالکل ایسے جیسے راکھ سے اٹھنے والا فینکس۔”
خزیق اب مقامی نوجوانوں کو شمسی چارجنگ پورٹس چلانے کی تربیت دے رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اب وہ اپنی خدمات میں بیٹری چارجنگ، واکی ٹاکی یا طبی آلات کی سہولت بھی شامل کریں گے۔
غزہ، فلسطین سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ




