چین کے مشرقی شہر شنگھائی میں منعقدہ عالمی اے آئی کانفرنس 2025 اور عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کی نظم ونسق سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس کی نمائش میں ایک بچہ انسان نما روبوٹ سے خریدا ہوا سامان وصول کررہاہے-(شِنہوا)
تیانجن(شِنہوا)تیانجن یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے پاکستانی طالب علم محمد سرفراز نے مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز کی خرابی دور کی اور توانائی کے مربوط نظام کے لئے اے آئی پر مبنی حقیقی وقت کا ایک سیمولیشن سسٹم تیار کیا ہے جس کا مقصد سمارٹ شہری توانائی گرڈز کے استحکام کو بہتر بنانا ہے۔
پاکستان کےجنوبی پنجاب کے ڈیرہ غازی خان کے دور دراز گاؤں میں پرورش پانے والے سرفراز کو سیلابوں اور تیز ہواؤں کی وجہ سے بجلی کی کثرت سے بندش کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی عمر سے ہی میں اپنے آبائی شہر سے باہر کی دنیا کے بارے میں جاننے کا خواہش مند تھا اور یہ جان کر بہت متاثر ہوا کہ ٹیکنالوجی روزمرہ کی زندگی کو کیسے بہتر بنا سکتی ہے۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ کیا ان دور دراز علاقوں کو مسلسل بجلی فراہم کرنے کا کوئی زیادہ سستا اور آسان حل موجود ہوسکتا ہے۔
اسی تجسس کے تحت سرفراز نے گزشتہ 10 سال میں چین میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے مواقع حاصل کئے۔ اب وہ تیانجن یونیورسٹی کے سکول آف الیکٹریکل اینڈ انفارمیشن انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کے امیدوار کے طور پر قابل تجدید توانائی ذخیرہ کرنےکے نظاموں میں اے آئی سے چلنے والی اختراعات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جو دونوں ممالک کے مشترکہ پائیدار ترقی کے اہداف میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
سرفراز کا تعلیمی سفر پاکستان سے شروع ہوا جہاں انہوں نے 2016 میں سکھر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔
اپنی مہارتیں بروئے کار لانے کی لگن میں انہوں نے لاہور میں ایک سرکاری محکمہ میں 2 سال کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام قیمتی تھا لیکن اس نے میری تکنیکی مہارتیں گہرا کرنے اور اپنی دلچسپی کے شعبے سے متعلق اعلیٰ علم حاصل کرنے کی خواہش کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا۔
چین کا رخ کرتے ہوئے انہوں نے بیجنگ میں نارتھ چائنہ الیکٹرک پاور یونیورسٹی سے الیکٹریکل اینڈ آٹومیشن انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔ وہاں انہوں نے قابل تجدید توانائی کی پیش گوئی پر تحقیق کی اور مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو دریافت کیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ مصنوعی ذہانت توانائی کے نظاموں کے انضمام، منصوبہ بندی اور کنٹرول کے طریقے کو بدل رہی ہے جو پیش گوئی پر مبنی بصیرتیں فراہم کرتی ہے جیسے کہ باقی مفید زندگی کا اندازہ لگانا جو میرے بیٹری ہیلتھ اسیسمنٹ کے کام سے متعلق ہے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ تیانجن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے پہنچے جس کی تعلیمی فضیلت، بین الاقوامی طلبہ کے لئے معاون ماحول، مضبوط کیریئر کے مواقع اور تحقیق و ترقی میں عالمی شناخت نے انہیں متاثر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی مستقبل کی سوچ رکھنے والی تحقیقی ثقافت اور جدید ٹیکنالوجیز پر توجہ اسے اختراع اور ذاتی ترقی کے لئے ایک مثالی جگہ بناتی ہے۔
سرفراز کے معمولات میں لیبارٹری میں سیمولیشنز پر کام، اے آئی ماڈلز کی تربیت اور توانائی کے نظام میں استعمال کے لئے بیٹری کے ڈیٹا کا تجزیہ شامل ہے۔ خاص طور پر وہ شہری نظاموں میں قابل تجدید توانائی کے ذخیرے کی پیش گوئی اور بہتر استعمال پر تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ تحقیق چین کی ماحول دوست توانائی کی کوششوں کو تقویت دیتی ہے اور ترقی پذیر خطوں میں بجلی کے مسائل کے حل میں مددگار ہے۔
تیانجن میں 3 سال گزارنے کے بعد سرفراز اس شہر کو محبت سے اپنا "دوسرا آبائی شہر” کہتے ہیں۔ اپنی پڑھائی کے علاوہ وہ تیانجن کی گلیوں میں گھومنا بھی پسند کرتے ہیں۔
مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تیانجن میرے لئے خوبصورت امتزاج کا شہر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تاریخ اور جدیدیت ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایک گلی میں آپ خوبصورت یورپی طرز کی عمارتوں سے گھِرے ہوتے ہیں جو ماضی کی کہانیاں سناتی ہیں اور اسی گلی کے کونے پر آپ جدید اختراعات، فلک بوس عمارتیں اور تیز رفتار جدید زندگی دیکھ سکتے ہیں۔
سرفراز نے کہا کہ روایت اور جدت کے اس امتزاج نے میری تحقیق کے لئے مجھے بہت سی تحریک دی ہے۔ یہ مناظر اس کی تخلیقی صلاحیت کو جلا بخشتے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ مختلف زاویہ نظر کس طرح جدت کو جنم دے سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مناظر سے بڑھ کر یہاں کے لوگ اور ان کی گرمجوشی ہے جس نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ تیانجن ایک ایسا شہر ہے جو آپ کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ متاثر بھی کرتا ہے۔
بحیرہ بوہائی کے کنارے واقع تیانجن نے حال ہی میں 31 اگست سے یکم ستمبر تک شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سب سے بڑے سربراہ اجلاس کی میزبانی کی جہاں دنیا بھر سے رہنما جمع ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ ایس سی او سربراہ اجلاس نہ صرف سیاست اور اقتصادیات میں بلکہ خاص طور پر اے آئی ٹیکنالوجی، صاف توانائی، تعلیم اور ثقافتی تبادلے جیسے شعبوں میں گہرے تعاون کے لئے ایک طاقتور محرک کا کام کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک محقق کے طور پر میں خاص طور پر نئی سائنسی شراکت داریوں اور مہارت تبادلہ پروگراموں کے امکانات کے بارے میں پرجوش ہوں جو سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ سربراہ اجلاس پل بنانے کا ایک شاندار موقع ہے۔
مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے سرفراز نے تعلیمی اور تحقیقی شعبے میں کام جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں پائیدار توانائی کے نظاموں اور بیٹری کی ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے کام کو عملی شکل دینے کی خاطر چند سالوں کے لئے چینی تحقیق و ترقی کے کسی چینی ادارے میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی پوزیشن یا کردار کا تصور کرتے ہیں۔ وہ پاکستان میں اے آئی والے حل لانا چاہتے ہیں۔ شاید ان دور دراز گاؤں کو موثر ٹیکنالوجیز سے روشن کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ان کے تجسس کو جنم دیا تھا۔
سرفراز کی پُرعزم آنکھوں میں نہ صرف ذاتی علمی خوابوں کی تعبیر چھپی ہے بلکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ وژن کی جھلک بھی موجود ہے۔ ایک ایسا وژن جوماحول دوست ترقی اور تکنیکی اختراع کے میدان میں مشترکہ سفر کی طرف گامزن ہے۔
