جمعرات, ستمبر 4, 2025
انٹرنیشنلدوسری عالمی جنگ کو یاد رکھنا مستقبل کے امن کے تحفظ کے...

دوسری عالمی جنگ کو یاد رکھنا مستقبل کے امن کے تحفظ کے لئے اہم ہے،ماہر بین الاقوامی تعلقات

ملائیشیا کے ایک ماہر تعلیم نے کہا ہے کہ چین نے دوسری جنگ عظیم کے دوران خطے کے دیگر ممالک کے لئے ایک طاقتور نمونہ پیش کیا اور ثابت کیا کہ بیرونی جارحیت اور اندرونی چیلنجز دونوں کا سامنا کرنے کے باوجود اس کے لوگ مزاحمت میں ثابت قدم رہے۔(شِنہوا)

کوالالمپور(شِنہوا)ملائیشیا کے ایک ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران زندہ رہنے والوں کی یادوں کو زندہ رکھنا نہ صرف اس نسل کا اعزاز ہے بلکہ آج کی نوجوان نسل میں شعور بھی بیدار کرتا ہے اور انہیں آئندہ عالمی جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کی حمایت کرنے سے روکنے میں بھی مدد کرتا ہے۔

یونیورسٹی ملایا کے شعبہ بین الاقوامی و تزویراتی علوم کے ایسوسی ایٹ پروفیسر رائے انتھونی راجرز نے ایک حالیہ انٹرویو میں شنہوا کو بتایا کہ فسطائیت کے خلاف انسانیت کی جدوجہد کے عینی شاہدین ہر سال کم ہوتے جا رہے ہیں اس لئے یہ اہم ہے کہ ان کی کہانیوں اور تجربات کو دستاویزی شکل دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان تاریک دنوں سے صحیح سبق حاصل کرنے کو یقینی بنانے کے لئے کتابوں، فلموں اور دیگر ذرائع کا استعمال بہت ضروری ہے۔

رائے انتھونی نے تجویز دی کہ اساتذہ کو روایتی کتابوں سے ہٹ کر نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ جنگ کے واقعات کو واضح طور پر بیان کیا جا سکے اور ان کہانیوں اور تجربات کی اصل روح کو قربان کئے بغیر انہیں مزید دلچسپ بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دوسری عالمی جنگ کتنی تباہ کن تھی، کیا ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہماری آنے والی نسل کے ساتھ ہو؟ اگر اس کا احتیاط سے تدارک نہ کیا گیا تو یہ دوبارہ ہو سکتا ہے لہٰذا ہمیں ان واقعات، ان کے اثرات اور لوگوں کی مشکلات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہمیں ان لوگوں کی گواہیوں کی ضرورت ہے جو اب بھی زندہ ہیں یا ان لوگوں کی یادداشتوں کی جو انتقال کر گئے ہیں۔ آج ہمارے پاس نئی ٹیکنالوجی ہے، صرف تحریری شکل میں نہیں اس کو دستاویزی فلموں یا فلموں میں بھی بنایا جا سکتا ہے تاکہ نئی نسل پر اس کا اثر پڑے۔

رائے انتھونی نے مشرق میں جنگ کے نتائج کے بارے میں چینی عوام کے بے پناہ تعاون کو اجاگر کیا۔ خاص طور پر چینی عوام کا اتحاد اور استقامت جس نے 1931 سے 1945 تک تنازع برداشت کیا جو یورپ کے تنازع کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل تھا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ چینی عوام کی کوششیں پورے ایشیا میں گونج اٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعی چینی تاریخ میں ایک مشکل لمحہ تھا۔ اس نے اس وقت کے لوگوں کی استقامت کی عکاسی کی کہ تمام مشکلات کے باوجود وہ زندہ رہے لہٰذا یہ استقامت کا ایک جذبہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ نہ صرف چین کے لوگوں بلکہ خطے میں بھی لوگوں کو مزید حوصلہ دیتی ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!