افریقہ ’کافی دانہ‘ کی پیداوار کے حامل دنیا کے اہم خطوں میں سے ایک ہے۔ ’عربیکا‘ اور ’روبوسٹا‘ کافی دانہ کی دو بڑی اقسام سمجھی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’کافی دانہ‘ کی پیداوار افریقہ سے ہی شروع ہوئی تھی۔
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): ڈینس منونے، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، افریقہ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، چائنہ افریقہ سینٹر، کینیا
’’کینیا کا موسم کافی موزوں اور سازگار ہے۔ یہاں بارش بھی ہوتی ہے اور دھوپ بھی۔ ’کافی‘ کے زیادہ خوش ذائقہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔آپ دیکھیں گے کہ کچھ کاشتکار ایسی زمین پر ’کافی‘ کی کاشت کرتے ہیں جو دنیا کی بہترین زرعی زمینوں میں شمار ہوتی ہے اور اس مٹی کی زرخیزی کافی کے ذائقے میں تیزابیت کو متوازن رکھنے میں مدد دیتی ہے۔‘‘
یوگنڈا بھی کافی برآمد کرنے والے اہم افریقی ممالک میں شامل ہے۔
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی):اگری تموہیروے، جنرل منیجر، اسٹار کیفے لمیٹڈ، یوگنڈا
’’یوگنڈا ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے جنگلات میں ’روبسٹا کافی‘ قدرتی طور پر اُگتی ہے۔ اسے یوگنڈا میں کسی نے متعارف نہیں کروایا بلکہ یہ خودبخود اُگتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہاں کا جغرافیائی ماحول ہے۔ مثلاً روبسٹا سطح سمندر سےعموماً 200 سے 1500 میٹر بلندی پر اُگتی ہے اور یوگنڈا کے بہت سے علاقے اسی طرح کے زمینی خد و خال رکھتے ہیں۔جھیل وکٹوریا کے آس پاس کا حصہ ان علاقوں میں خاص طور پر شامل ہے۔ اس کے علاوہ یوگنڈا کا گرم مرطوب موسم بھی روبسٹا کی افزائش کے لئےنہایت موزوں ہے۔‘‘
19ویں صدی کے آخر میں مغرب کی نوآبادیاتی طاقتوں نے افریقہ میں طاقت کے زور پر لوگوں سےزمینیں چھین کر وہاں کافی اور چائے کی کاشت شروع کر دی تھی۔ کٹائی کے بعد یہ کافی افریقہ سے باہر لے جائی جاتی جہاں اس کی پروسیسنگ اور فروخت ہوتی۔ اس عمل نے افریقی عوام کے دلوں میں خونریزی اور استحصال کی تکلیف دہ یادیں چھوڑ دیں۔
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): اگری تموہیروے، جنرل منیجر، اسٹار کیفے لمیٹڈ، یوگنڈا
’’وہ سیاہ کافی جو ہم فصل کاٹنے کے بعد سکھاتے ہیں، اسے "کیبوکو” کہا جاتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں "کیبوکو” کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ انگریز زبردستی کر رہے تھے، لوگوں کو کافی اگانے پر مجبور کرتے اور انہیں کوڑوں سے مارتے تھے۔ وہ اُن لوگوں کو مارتے تھے جو زمین پر کافی کی کاشت کرتے تھے۔ اس طرح لوگ اس نوآبادیاتی ذہنیت کے ساتھ پروان چڑھے۔ ان کی سوچ تھی کہ سب سے پہلے تو کافی گوروں کا مشروب ہے۔ دوسرا یہ امیروں کا مشروب ہے اور اسے صرف منافع کے لئےبطور نقد فصل اگایا جاتا ہے۔ یہی وہ نوآبادیاتی سوچ تھی جو کافی سے منسوب ہو گئی۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): ڈینس منونے، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، افریقہ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، چائنہ افریقہ سینٹر، کینیا
’’اگر آپ اس کا مثبت پہلو دیکھیں تو وہ یہ ہے کہ ہم عمدہ مصنوعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ منفی پہلو بنیادی طور پر پالیسیاں ہی ہیں۔ اگر میں آپ کو ماضی میں لے کر جاؤں تو کینیا کے لوگوں کو کافی اگانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُن میں سے بیشتر کو صرف مزدور کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا تاکہ نوآبادیاتی آقاؤں کو سستی محنت فراہم کی جا سکے۔‘‘
حالیہ برسوں میں افریقہ نے کافی کی پروسیسنگ کے شعبے کو تیز رفتاری سے فروغ دیا ہے تاکہ وہ کافی کی عالمی سپلائی چین میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے۔
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): کاروگا ماچاریہ، نائب صدر، افریقن فائن کافی ایسوسی ایشن
’’ اب رجحان یہ ہے کہ پیداوار کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ساری کوششیں اسی جانب مرکوز ہیں کہ کسان کو کم وسائل میں زیادہ پیداوار کے قابل کیسے بنایا جائے۔‘‘
کافی کی پروسیسنگ کی صنعت کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ متعدد افریقی ممالک نے کافی کے شعبے میں باہمی تعاون کو مضبوط کیا ہے۔ ان ممالک نے دنیا کے جنوبی خطے کی منڈیوں میں مواقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس طرح ان ممالک نے نسبتاً زیادہ منصفانہ اور مساوی عالمی تجارتی نظام قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی):ڈینس منونے، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، افریقہ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، چائنہ افریقہ سینٹر، کینیا
’’بطور ملک، ہمیں دنیا کے جنوبی خطے کی منڈیوں میں اپنی رسائی بڑھانے کی خاص طور پر ضرورت ہے۔ اس قسم کی بڑی منڈی بہت اہم ہے۔ اگر ہم اپنی مصنوعات ایسی منڈیوں میں فروخت کرنے کے قابل ہو جائیں تو ہمیں زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): ازرا سوروما، سابق وزیر خزانہ، یوگنڈا
’’حالیہ چند برسوں میں افریقی خطے کے ان پیداواری ممالک کے درمیان تعاون کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ عالمی منڈی میں ایک آواز بن سکیں۔ انفرادی طور پر ان ممالک کی اہمیت کم ہے اور وہ منڈی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔لیکن اگر متحد ہو جائیں تو اپنی مصنوعات پر زیادہ اثر و رسوخ رکھ سکیں گے۔‘‘

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link