اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینسپریم کورٹ: آرٹیکل 63  اے نظر ثانی کیس ،سماعت کل تک ملتوی

سپریم کورٹ: آرٹیکل 63  اے نظر ثانی کیس ،سماعت کل تک ملتوی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے نظرثانی اپیل پر سماعت (آج) تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ضمیر کے معاملات کے فیصلے کرنا مشکل، حقائق پر فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے، کیا آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ آئین کے آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف نہیں؟، لوگوں کے ضمیر میں کون جھانکے گا؟،کیا جو روز پارٹی تبدیل کرتے ہیں وہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہیں یا بے ایمان ہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟، فریقین بتائیں کیا صدارتی ریفرنس اور/3 184کی درخواستوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے، برطانیہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں ہے وہاں کی صورتحال بتائیں، نظر ثانی منظور ہونا یہ نہیں ہوتا فیصلہ غلط ہے، وجوہات غلط ہوتی ہیں، نظرثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، آپ فیصلے کا نتیجہ نہیں صرف وجوہات دیکھ سکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بینچ پرمشتمل لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظر ثانی اپیل پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب اختر سے بینچ میں شمولیت کی درخواست کی گئی تاہم انہوں نے اپنا پرانا موقف برقرار رکھا،آج کل سب کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے، سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ کیس کی فائل میرے پاس آئی میں نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شمولیت سے انکار کیا جس پر جسٹس نعیم اختر کو بینچ میں شامل کیا گیا، اب لارجر بینچ مکمل ہے، کارروائی شروع کی جائے۔

سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ علی ظفر نے استدعا کی کہ میں بینچ پر اعتراض اٹھانا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا آپ اپنی نشست پر واپس چلے جائیں، ہم آپ کو بعد میں سنیں گے۔سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کیس کا پس منظر پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور/3 184 کی درخواستیں بھی تھیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا، کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ ریفرنس پر رائے اور/3 184 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟، صدراتی ریفرنس پر صرف رائے دی جاسکتی ہے، فیصلہ نہیں دیا جاسکتا، کیا عدالت نے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی فیصلہ جاری کیا۔انہوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے، صدراتی ریفرنس پر دی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہو سکتی۔

صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک آئی، 21 مارچ 2022ء کو پی ٹی آئی حکومت میں صدر مملکت نے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا، ہماری درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی صدر مملکت نے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئینی درخواست کس نے دائر کی تھی؟ اس وقت صدر مملکت کون تھے؟،صدر بار نے بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت نے درخواست دائر کی اور اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر کی جانب سے کیا قانونی سوالات اٹھائے گئے تھے؟جس پر شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ صدر پاکستان نے ریفرنس میں 4 سوالات اٹھائے تھے، آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی، عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے کو اکیلا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، عدالت نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کیلئے اہم ہیں اور پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کیلئے کینسر ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی، شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ یہ رائے صدر مملکت کے سوال کا جواب نہیں تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا؟،سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جا سکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کیلئے کینسر کا لفظ لکھا گیا، کینسر لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا، کیا فیصلے میں منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا بھی لکھا گیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ نہیں ہوگا، ڈی سیٹ کرنے کا حکم فیصلے میں نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں تحریک عدم اعتماد، وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا انتخاب اور منی بل کی وضاحت موجود ہے، جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے؟۔

چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر ارکان نااہل ہو گا، فیصلہ تو اس معاملے کو جماعت کے سربراہ پر چھوڑ رہا ہے، جماعت کے سربراہ کی مرضی ہے کہ چاہے تو نااہل نہ کرے، جماعت کا سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی نہ تو کیا ہو گا؟ جس پر شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جا سکتا، یعنی آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہو گیا۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟، چیف جسٹس نے پوچھا کیا عدالت نے فیصلے میں آرٹیکل 95 پر کچھ کہا کسی جماعت کا رکن پارٹی سربراہ کو پسند نہ کرے اور ہٹانا چاہئے تو کیا کیا جائیگا؟، اگر اراکین کا ووٹ تک گنا ہی نہیں جاسکتا تو کیا کیا جائیگا؟۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان میں انہی دنوں اپنی ہی جماعت کے لوگ اپنے وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد لائے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ برطانیہ میں حال ہی میں ایک ہی جماعت نے اپنے وزیراعظم تبدیل کئے اس دوران جماعت نے ہاؤس میں اکثریت بھی نہیں کھوئی۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا انحراف کرپٹ پریکٹس جیسا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے، کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کو متاثر نہیں کرتا، کیا پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے جیسا نہیں؟۔

چیف جسٹس ریمارکس دیئے کہ ضمیر کے معاملات کے فیصلے کرنا مشکل، حقائق پر فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے، کیا آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ آئین کے آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف نہیں؟۔شہزاد شوکت نے کہا کہ جی بالکل یہ فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ضمیر کا فیصلہ کون کرے گا؟ لوگوں کے ضمیر میں کون جھانکے گا؟،کیا جو روز پارٹی تبدیل کرتے ہیں وہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہیں یا بے ایمان ہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟، ہم بطور جج کیسے فیصلہ کریں کہ ایک بندہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے یا نہیں، ہم کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی سربراہ الگ الگ ہدایات دیں تو کیا ہوگا؟، ایسے میں تعین کیسے کیا جاسکتا ہے کہ کس کی ہدایات ماننا ضمیر کی آواز ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف پر جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، فیصلے میں وضاحت موجود ہے کہ نااہلی سے متعلق کون سی شقیں ازخود نافذ ہوتی ہیں اور کون سی نہیں؟، امریکی آئین میں انحراف سے متعلق کیا ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار نے جواب دیا کہ وہاں اراکین ووٹنگ کیلئے آزاد ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ میں انحراف کی سزا نہیں جب کہ فیصلے میں تو امریکی سپریم کورٹ کے حوالے دیے گئے ہیں۔شہزاد شوکت نے استدعا کی کہ ہماری گزارش ہے کہ فیصلے کو واپس لیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا بتائیں فیصلے میں کیا غلط ہے، انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے جیسا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ صرف یہ نہیں کہتاکہ آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا، فیصلہ کہتا ہے کہ پارٹی کہے تو ووٹ لازمی کرنا ہے، پارٹی کے کہنے پر ووٹ نہ کرنے پر رکن کے خلاف کارروائی کا کہا گیا ہے، نظرثانی درخواست کب دائر ہوئی؟۔

شہزاد شوکت نے بتایا کہ 2022ء میں نظرثانی درخواست دائر کی، چیف جسٹس نے کہا کہ عابد زبیری بھی جب صدر سپریم کورٹ بار بنے تو اپیل واپس نہیں لی، سپریم کورٹ بار کے دونوں گروپ نظرثانی درخواست پر قائم رہے، چلیں تسلی ہوئی کہ نظرثانی بار سیاست کی وجہ سے نہیں تھی۔ شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ نظرثانی خالصتاً آئینی مسئلہ ہی تھا۔شہزاد شوکت نے کہا کہ واقع کے بعد منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست آئی تھی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھاکہ کسی بھی رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائے گا۔

اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا وکیل ہوں لیکن نوٹس تاحال موصول نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ویسے بتادیں آپ نظر ثانی کے حامی ہیں یا مخالف ہیں؟۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نظر ثانی کی مخالفت کروں گا، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ووٹ نہ گنا جانا آئین میں نہیں لکھا، اگر ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا تو مطلب ہے میں نے کچھ غلط نہیں کیا، انحراف کا اطلاق تب ہوگا جب ووٹ گنا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں جن ممالک کے فیصلوں کا حوالہ ہے ان ممالک میں انحراف کی سزا کا بھی بتائیں، فریقین یہ بھی بتائیں کیا صدارتی ریفرنس اور/3 184کی درخواستوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ ہے وہاں کی صورتحال بتائیں، نظر ثانی منظور ہونا یہ نہیں ہوتا کہ فیصلہ غلط ہے، وجوہات غلط ہوتی ہیں، نظرثانی کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے، آپ فیصلے کا نتیجہ نہیں صرف وجوہات دیکھ سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت ملتوی کردیتے ہیں، جو وکلا رہ گئے ہیں، ان کے دلائل کل سنیں گے۔بعد ازاں کیس کی سماعت (آج) تک ملتوی کردی گئی۔آج کی سماعت بارے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نظر ثانی درخواست 3 دن کی تاخیر سے دائر ہوئی جس پر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا، درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ موجود نہ ہونے پر نظر ثانی تاخیر سے دائر ہوئی۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ رجسٹرار آفس معلوم کرے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا، جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، دوبارہ درخواست پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھا، رجسٹرار معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا، ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایاگیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ دوران سماعت کچھ سوالات سامنے ائے، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے، فریقین برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے آگاہ کریں۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وکیل علی ظفر نے کہا ہے کہ میرا موکل جیل میں ہے نوٹس ملے گا تو جا کر ہدایات لوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئینی معاملہ ہے، ہدایات کیا لیں گے، کیا وہ آپ سے کہیں گے آئین کو نہ مانو، کیا ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر نوٹس دیں۔

علی ظفر نے کہا ہے کہ موجودہ صدر نے نظر ثانی دائر نہیں کر رکھی ہے، حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر مملکت اگر معاونت کرنا چاہیں تو ویلکم کیا جائے گا، علی ظفر نے کہا کہ میں تحریک انصاف نہیں بلکہ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے پیش ہو رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارے لئے سب کچھ ہیں۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!