اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینسپریم کورٹ،نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلیں منظور،نیب ترامیم بحال

سپریم کورٹ،نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلیں منظور،نیب ترامیم بحال

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر متاثرین کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور اور نیب ترامیم بحال کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا یا سیاسی انجینئرنگ تھا، اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا،چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کا کام پارلیمنٹ کے گیٹ کیپر کا نہیں،آئینی اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے،پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دیا جانا چاہئے، اس کا مطلب ہرگز نہیں خلاف آئین قانون سازی کو بھی کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا،بانی پی ٹی آئی نے نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی،وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے نیب ترامیم خلاف آئین تھیں، پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے، جب تک قانون کالعدم نہ ہو سپریم کورٹ و دیگر عدالتیں قانون پر عمل کی پابند ہیں۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین خان، جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اورجسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5رکنی بینچ نے متفقہ طور پر نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر متاثرین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے 16صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے زبردستی اقتدار میں آنے کے 34 دن بعد بنایا،پرویز مشرف نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینکا اور اپنے لئے قانون سازی کی، سابق صدر نے اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی،جن سیاستدانوں نے پرویز مشرف کو جوائن کیا انہیں نیب سے بری کردیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشرف دور میں بنائے گئے قانون کے دیباچہ میں لکھا گیا کہ نیب قانون کا مقصد کرپشن کا سدباب ہے، نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا یا سیاسی انجینئرنگ تھا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کو جلد ختم کرنے کی  بجائے اس کو بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا۔متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز کا کام پارلیمنٹ کے گیٹ کیپر کا نہیں،آئینی اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دیا جانا چاہئے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خلافِ آئین قانون سازی کو بھی کالعدم قرار نہیںدیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں، موجودہ مقدمے میں بھی ترامیم غیر آئینی ہونے کے حوالے سے ہم قائل نہیں ہو سکے،ان ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار عمران نیازی خود تھے، بانی پی ٹی آئی نے نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی،وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم خلاف آئین تھیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون میں 3 ترامیم کی گئیں،پہلا ایکٹ 22جون 2022ء کو نافذ کیا گیا، دوسری ترمیم 22اگست 2022ء کو کی گئی، تیسری ترمیم 29 مئی 2023ء کو کی گئی، جب نیب ترامیم کیخلاف مقدمے کی 6 سماعتیں ہوچکی تھیں تو تیسری ترمیم لائی گئی، نیب قانون کی تیسری ترمیم کا سپریم کورٹ نے فیصلے میں جائزہ ہی نہیں لیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون کی تیسری ترمیم ٹرائل اور عدالتوں کی کارروائی سے متعلق ہے، بانی پی ٹی آئی کو ایڈووکیٹ خواجہ حارث کی خدمات سرکاری خرچ پر دی گئیں، تاہم وکیل خواجہ حارث نے بغیر پیسوں کے بانی پی ٹی آئی کی نمائندگی کی۔

فیصلے کے مطابق نیب ترامیم کیس جب زیر التوا تھا تو پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون آیا جس میں کہا گیا کہ آئینی تشریح کا کیس کم از کم 5 رکنی بینچ سنے گا،3رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ پہلے ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا نیب ترمیم کیس سننا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے متضاد تھا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی، فیصلے میں نہیں بتایا گیا کہ کسی فرد کا وقار کیسے مجروح ہوا، آئینی ادارے عوام کیلئے اس وقت بہتر کارکردگی فراہم کریں گے جب ان کا آپس میں احترام ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نیب ترامیم درخواست پر فیصلے سے 5 ماہ پہلے بنایا گیا، نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر 5 رکنی بینچ بنانے کی استدعا کو مسترد کیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی نیب ترامیم پر 5 رکنی بینچ بنایا جائے، جسٹس منصور علی شاہ خود کو بینچ سے الگ کر لیتے تو 2 ممبر نیب ترامیم کیخلاف درخواست کو سن سکتا نہ فیصلہ کر سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے آپریشن کو معطل کیا جس کے بعد کیس 100 دن تک نہیں سنا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیخلاف درخواستوں کی 18 ستمبر 2023ء پر سماعت ہوئی۔ فیصلے میں نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم کیسے ہیں؟،محض بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہہ دینے سے آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی اور وکیل خواجہ حارث نیب ترامیم کے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے پر مطمئن نہیں کر سکے، پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے، جب تک قانون کالعدم نہ ہو سپریم کورٹ و دیگر عدالتیں قانون پر عمل کی پابند ہیں،قانون کے کالعدم نہ ہونے تک اس کا احترام ہونا چاہئے۔

عدالت نے قرار دیا کہ پارلیمنٹ آئین سے منافی قانون بنائے تو عدالت کا کالعدم کرنے کا اختیار ہے، 3 رکنی بینچ کے اکثریتی ججز نے ترامیم کا آئین کے تناظر میں جائزہ نہیں لیا، قانون ججز کو اپنے کرائیٹیریا یا پیمانہ سے پر پرکھنے کی آئین اجازت نہیں دیتا، ججز اپنے حلف کے مطابق آئین و قانون کے پابند ہیں۔فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹس تحریر کئے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ چیف جسٹس کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، حکومتی اپیلیں پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت قابل سماعت نہیں، حکومت کی انٹرا اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں، متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی جاتیں ہیں، نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، ججز اور آرمڈ فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کے ایڈیشنل نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کیلئے منظور کی جاتی ہیں، وفاقی حکومت کا استحقاق نہیں تھا کہ انٹرا کورٹ اپیل دائر کرے، اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔اضافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ میں فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!