بیجنگ(شِنہوا)چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے ماتحت کونمنگ انسٹیٹیوٹ آف زولوجی (کے آئی زیڈ) کی زیر قیادت ایک تحقیقی ٹیم نے حال ہی میں ریسس بندروں میں قدرتی بڑھاپے کا ایک جامع نقشہ تیار کیا ہے، جس میں کئی مالیکیولی جہتوں کے تحت تمام بڑے جسمانی نظاموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
چائنہ سائنس ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق ریسس بندر جسمانی ساخت، میٹابولزم اور بڑھاپے کی علامات کے اعتبار سے انسانوں سے گہری مشابہت رکھتے ہیں، اسی لئے وہ غیر انسانی بنیادی تحقیق میں نہایت قیمتی ماڈلز تصور کئے جاتے ہیں۔
ایک پچھلی تحقیق میں کے آئی زیڈ کے محقق کونگ چھنگ پینگ نے ایک ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے یہ دریافت کیا کہ ریسس بندروں میں بڑھاپے کا عمل نمایاں غیر خطی خصوصیات رکھتا ہے اور 16 سے 19 سال کی عمر کے درمیان ایک واضح تیز رفتاری کا موڑ آتا ہے، جو انسانی عمر کے لحاظ سے تقریباً 48 سے 57 سال کے برابر ہے۔
یہ موڑ انسانی بڑھاپے کے دوران دیکھے جانے والی اہم تبدیلیوں سے بڑی حد تک مطابقت رکھتا ہے، جو انسان کے بڑھاپے کے مطالعے کے لئے ریسس بندر کو ایک مثالی ماڈل کے طور پر مزید تقویت دیتا ہے۔
کونگ کی ٹیم نے دیگر محققین کے ساتھ مل کر 3 سے 27 سال عمر کی 17 مادہ ریسس بندروں پر مبنی ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق میں جلد، نظام ہاضمہ کے متعدد حصوں اور قلبی و مدافعتی نظام سے متعلق اعضاء سمیت 30 بڑے اعضاء سے نمونے جمع کئے گئے۔ انہوں نے تین مالیکیولر جہتوں یعنی ٹرانسکرپٹومکس، پروٹیومکس اور میٹابولومکس میں اوماکس ڈیٹا کی پیمائش اور تجزیہ کیا۔
ان کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ریسس بندروں میں بڑھاپے کا عمل مختلف اعضاء میں مختلف رفتار سے ہوتا ہے۔ 12 اعضاء نسبتاً تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں، جن میں تھائمس، تلی، معدے اور آنتوں کا نظام، گردے اور بیضہ دانیاں شامل ہیں۔ جبکہ 11 اعضاء نسبتاً آہستہ آہستہ بوڑھے ہوتے ہیں، جن میں دماغ، جگر، جلد اور ایڈرینل غدود شامل ہیں۔
تحقیق میں مزید یہ شناخت کی گئی کہ اعضاء کے بڑھاپے میں یہ فرق کس بنیادی مالیکیولی خصوصیات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ تیزی سے بڑھاپا اختیار کرنے والے اعضاء میں ایم آر این اے کو پروٹین میں تبدیل کرنے کی کارکردگی عمر کے ساتھ نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے جبکہ سست رفتاری سے بڑھاپا اختیار کرنے والے اعضاء میں یہ نسبتاً مستحکم رہتی ہے۔




