بیجنگ(شِنہوا)جاپانی وزیراعظم سنائی تاکائیچی کے چین کے بارے میں انتہائی غلط اور جارحانہ بیانات نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے کہ وہ جاپان کو اس کے بدنام زمانہ عسکریت پسند ماضی کی طرف واپسی کی راہ پر لے جا رہی ہیں۔
حال ہی میں تاکائیچی نے کہا تھا کہ چینی مین لینڈ کی طرف سے "تائیوان پر طاقت کا استعمال” جاپان کے لئے "بقا کو خطرہ میں ڈالنے والی صورتحال” پیدا کر سکتا ہے، جس سے آبنائے تائیوان میں جاپان کی فوجی مداخلت کا عندیہ ملتا ہے۔ چین کے باضابطہ سفارتی احتجاج اور شدید مذمت، ان کے پیشروؤں اور دیگر اہم جاپانی شخصیات کی تنقید کے باوجود انہوں نے اب تک اپنے ان مضر بیانات کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔
تاکائیچی کے یہ بیانات لوگوں کو جاپان کی ماضی کی سامراجی جارحیت کی یاد دلاتے ہیں اور ملک کے فوجی عزائم کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اپنی تاریخ میں جاپان نے نام نہاد قومی بقا کے بحرانوں سے نمٹنے کے بہانے بہت سے ممالک کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا ہے، جن میں 1931 سے 1945 تک چین پر حملہ بھی شامل ہے۔ جاپانی جنگوں کی جارحیت نے ایشیا کے متعدد ممالک میں بقا کے بحران پیدا کئے اور خطے کے لوگوں پر اور اس سے باہر بھی ناقابل بیان مصائب ڈھائے۔
تاکائیچی کے چین سے متعلق گمراہ کن دعوے کوئی تنہا واقعہ نہیں بلکہ ازسرنو ابھرنے والے عسکریت پسندانہ رجحانات کو تیز کرنے کے ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ان گمراہیوں کے پیچھے جاپانی دائیں بازو کی قوتوں کی وہ جنونیت اور گھمنڈ پوشیدہ ہے جو ملک کے امن پسند آئین سے خود کو آزاد کر کے اسے ایک "فوجی طاقت” کے طور پر آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں جاپان اپنی سکیورٹی پالیسی کو یکسر تبدیل کر رہا ہے، اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کر رہا ہے، اسلحے کی برآمدات پر عائد پابندیوں کو نرم کر رہا ہے، حملہ آور ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور فوجی طاقت میں اضافے کی غلط راہ پر گامزن ہو رہا ہے۔
عہدہ سنبھالنے سے پہلے تاکائیچی نے بارہا چین مخالف بیانات دیئے، نان جنگ قتل عام، جو جاپانی افواج نے اپنی جارحیت کے دوران چین میں کیا، کی تردید کی، "چینی خطرے” کے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور تائیوان کے مسئلے پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے کئے۔ وہ متعدد بار یاسوکونی مزار بھی جا چکی ہیں، جو جاپانی عسکریت پسندوں کا ایک روحانی ہتھیار اور علامت سمجھا جاتا ہے، وہی عسکریت پسند جنہوں نے جارحانہ جنگ کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔ اس مزار میں 14 سزا یافتہ کلاس-اے جنگی مجرموں کو بھی عزاز دیا گیا ہے، جو اس جارحانہ جنگ کے دوران کئے گئے جنگی جرائم کے بڑے ذمہ دار تھے۔




