چین کے شہر دونہوانگ میں "گلوبل میئرز ڈائیلاگ” کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں دس ممالک اور خطوں سے آئے میئرز، سفارت کاروں اور دیگر نمائندوں نے شرکت کی ہے۔
دونہوانگ قدیم شاہراہِ ریشم کا ایک اہم مرکز رہا ہے جہاں بدھ مت سے متعلق نوادرات اور فن پارے بڑی تعداد میں محفوظ ہیں۔
ساوٴنڈ بائٹ 1 (انگریزی): بُراک دیستے، نمائندہ میئر آف مانیسا، تُرکیہ
"میں پہلے بھی چین آ چکا ہوں لیکن دونہوانگ کا تجربہ منفرد اور حیران کن ہے۔ یہاں کے میوزیم، کتاب گھر اور پرنٹ اسٹور متاثر کن ہیں۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنے ورثے کو جدید انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ایسے عالمی مکالمے ثقافتی رشتوں کو مضبوط بناتے ہیں۔”
چوتھی سے چودھویں صدی کے دوران تعمیر ہونے والے دونہوانگ کے موگاؤ غاروں میں دو ہزار سے زائد رنگین مجسمے اور پینتالیس ہزار مربع میٹر پر پھیلے دیواری نقش و نگار کے ساتھ کل 735 غار شامل ہیں۔
ساوٴنڈ بائٹ 2 (انگریزی): ماسیمو آندریولی، نمائندہ میئر آف وینس، اٹلی
"یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دونہوانگ نے اپنے ورثے کو فروغ دینے کا منفرد طریقہ اپنایا ہے۔ موگاؤ غاروں کے رنگ اور نقش و نگار ہاتھ سے بنے فن پاروں، کتابوں اور دیگر اشیاء میں جھلکتے ہیں۔ یہ ایک ذہانت بھرا اور تخلیقی طریقہ ہے۔”
ساوٴنڈ بائٹ 3 (انگریزی): اسٹیون ایچ بیک، ہنگری کے ماہرِ چینیات
"دونہوانگ طویل عرصے سے عالمی ورثے کے تحفظ کی نمایاں مثال ہے۔ یہاں کا ڈیجیٹلائزیشن منصوبہ نہ صرف چینی بلکہ دنیا بھر کے محققین کے لیے تحقیق کے نئے دروازے کھول رہا ہے۔ یہ شہر قدیم دور میں مشرق و مغرب کے فکری تبادلوں کی علامت رہا ہے۔”
دونہوانگ، چین سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ
—————————————-
آن سکرین ٹیکسٹ:
دونہوانگ میں عالمی مکالمہ، ثقافتی ورثے میں نمایاں پیش رفت
عالمی مکالمہ میں دس ممالک کے نمائندوں کی شرکت
موگاؤ غاریں بدھ مت فن پاروں اور قدیم تصویروں کا خزانہ قرار
دونہوانگ کا ثقافتی فروغ حیران کن اور متاثرکن ہے۔ترک نمائندہ
دونہوانگ نے ورثے کو جدید رنگ میں زندہ رکھا ہے۔اطالوی نمائندہ
دونہوانگ عالمی محققین کے لیے علم و تحقیق کا مرکز ہے۔ہنگری ماہر
ڈیجیٹلائزیشن منصوبے سے قدیم ورثے کو نئی زندگی ملی
