چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خودمختار علاقے کے قدیم شہر کاشغر کے پرفضا مقام کی افتتاحی تقریب میں فنکار موسیقی پر رقص پیش کر رہے ہیں-(شِنہوا)
ارمچی(شِنہوا)قدیم شہر کاشی میں سیاحتی عروج کے موسم میں سیاحوں کی گہما گہمی ہے۔ کاشی کے قدیم شہر
کی سیاحت کے حوالے سے افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو ہزارہ یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ بی بی نے پرجوش انداز میں اپنا سمارٹ فون اٹھا کر اس لمحے کی تصویر بنا لی۔
رپورٹر کی طرف رخ کرتے ہوئے وہ خوشی سے بولیں کہ میں نے اپنی کتاب میں اس جگہ کے بارے میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ حال ہی میں بین الاقوامی میڈیا نمائندوں کے ایک وفد کے ساتھ سنکیانگ کے دورے پر آئیں تاکہ اس خطے کا وہ مشاہدہ کر سکیں جس پر وہ پہلے تحقیق کر چکی ہیں اور تحریری کام کیا تھا۔
اگلی منزل کی جانب سفر کے دوران ڈاکٹر عائشہ نے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے ذکر کیا کہ اپنی تحریروں میں انہوں نے کاشی کی کیسے منظر کشی کی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی کتاب میں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے باب میں کاشی کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ چین کے شمال میں سنکیانگ کے شہر کاشی سے شروع ہو کر پاکستان کی جنوبی بندرگاہ گوادر تک پھیلا سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا فلیگ شپ منصوبہ ہے جو دونوں ممالک نے مل کر شروع کیا تھا۔ 2013 میں اپنے آغاز سے اس راہداری نے ٹرانسپورٹ، توانائی اور بندرگاہوں کی ترقی سمیت کئی شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے فروغ میں سی پیک کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے یاد کیا کہ جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو پاکستان شدید اقتصادی مسائل کا شکار تھا۔ بہت کم لوگوں کو توقع تھی کہ چین ایسے حالات میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ آج سی پیک نے نہ صرف پاکستان کی توانائی کی قلت کو کم کیا ہے بلکہ بنیادی شہری سہولیات میں بھی مسلسل بہتری آئی ہے جس سے ملک کے معاشی منظرنامے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر بندرگاہ جو کبھی ایک چھوٹا سا ماہی گیری کا گاؤں تھا، آج وہ ایک علاقائی اقتصادی مرکز بن چکا ہے اور عالمی ترسیلی ذرائع میں اس نے اپنا کردار مضبوط کیا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ ہمیں اب عالمی روابط کا ایک وسیع تصور حاصل ہو چکا ہے جو اس راہداری کے ذریعے ممکن ہوا ہے۔
سنکیانگ کے اس دورے سے انہیں یہ سمجھنے کا بھرپور موقع ملا کہ چین علاقائی ترقی کو کس طرح فروغ دے رہا ہے۔کئی فیکٹریوں اور اداروں کے دورے میں انہوں نے جدید مشینری کو صنعت و زراعت کے شعبوں پر مشتمل جدید ورکشاپوں اور ذہین پیداواری نظام میں رواں دواں دیکھا جو سنکیانگ میں تیزی سے ہونے والی صنعتی ترقی کی واضح مثال ہے۔
ڈاکٹر عائشہ نے نشاندہی کی کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ چین کی جدیدیت صرف شنگھائی اور بیجنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ اب یہ ہر صوبے اور خطے تک پھیل چکی ہے جیسا کہ سنکیانگ اس کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے سنکیانگ کے تزویراتی محل وقوع کو بھی اجاگر کیا جو 8 ممالک کے ساتھ سرحدیں رکھتا ہے اور اس کی سرحدی لائنز 5 ہزار 700 کلومیٹر سے زائد ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے اہم مرکز کے طور پر انہوں نے کہا کہ سنکیانگ دنیا کے لئے چین کےدروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔
چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خودمختار علاقے کے شہر ارومچی میں عائشہ بی بی (سامنے بائیں سے پہلے) اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دیگر میڈیا نمائندگان ایک کمیونٹی کا دورہ کرتے ہوئے-(شِنہوا)
