2025 کے گلوبل ساؤتھ میڈیا اینڈ تھنک ٹینک فورم کا آغاز ہفتے کے روز چین کے جنوب مغربی صوبے یوننان کے دارالحکومت کُنمنگ میں ہوا ہے۔
اس تقریب میں 110 ممالک اور خطوں سے تعلق رکھنے والے 260 سے زائد میڈیا اداروں، تھنک ٹینکس، سرکاری محکموں اور بین الاقوامی تنظیموں کے تقریباً 500 نمائندوں نے شرکت کی ہے۔
فورم کے دوران پاکستان کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کی نائب وزیر امبرین جان نے گلوبل ساؤتھ کے لیے تہذیبی مکالمے کی عملی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ’’تہذیبی مکالمہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی کے شعبوں میں بہتر کام میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت، ماحول دوست توانائی، ماحولیاتی موافقت یا ڈیجیٹل ڈھانچے میں تعاون اس وقت زیادہ مؤثر ہوگا جب مختلف ثقافتی نقطہ ہائے نظر اور ترجیحات کا احترام کیا جائے گا۔‘‘
تفصیلی خبر:
پاکستان اور چین کی شراکت داری اس کی عملی مثال ہے۔ ہماری دوستی صرف تجارت یا بنیادی ڈھانچے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مشترکہ تاریخ اور باہمی احترام پر مبنی ہے۔ صدیوں پہلے قدیم شاہراہِ ریشم نے ہمیں جوڑا تھا۔
ہمارے تجربات ہمیں قریب لا سکتے ہیں اور ہم خوشحالی میں شراکت کے ذریعے مستقبل کی خوشحالی کے قیام میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
چین نے ہمیشہ کشادہ دلی کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی، سائنس اور ڈیجیٹل صلاحیتوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹا ہے۔ وہ کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اپنے علم اور تجربے کے تبادلے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔
چینی سرمایہ کار یہ ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کریں گے تاکہ ہم خود مختار بن سکیں۔ چین پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے ہم اپنی ترقی کے قابل ہوں گے۔ یہ معاشی اور تکنیکی خود مختاری سی پیک کے دوسرے مرحلے کا ایک اہم حصہ ہے۔
تہذیبی مکالمہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی میں تعاون کو مزید بہتر بنا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت، ماحول دوست توانائی، موسمیاتی موافقت اور ڈیجیٹل ڈھانچے میں شراکت تب ہی مضبوط ہوگی جب مختلف ثقافتوں کے رویوں اور ترجیحات کا احترام کیا جائے گا۔
سب سے اہم بات ایک دوسرے کی ثقافت کا احترام ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کی ثقافتوں اور مشترکہ امنگوں کا احترام نہیں کرتے، ہم ترقی اور خوشحالی کا مشترکہ ہدف حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو اس کے لیے ایک واضح فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ یہ تنوع کا احترام کرتا ہے، مشترکہ انسانی اصولوں کو اہمیت دیتا ہے، ورثے کے تحفظ پر زور دیتا ہے اور عوام کے براہِ راست روابط کو فروغ دیتا ہے۔
چین نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے بھی رول ماڈل ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ چین کشادہ دلی کی وجہ سے ایک مثالی ملک ہے۔
میرا خیال ہے ہر پاکستانی چین سے بے حد محبت کرتا ہے اور یہ محبت آپ نے اپنے عمل سے حاصل کی ہے۔
