ہفتہ, اکتوبر 11, 2025
پاکستانپاکستانی عوام کی سکیورٹی افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی، ترجمان پاک...

پاکستانی عوام کی سکیورٹی افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی، ترجمان پاک فوج

پشاور: ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے، خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں کو جگہ دی گئی، خیبرپختونخوا میں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، اس کا خمیازہ خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون سے بھگت رہے ہیں، پاکستانی عوام کی سکیورٹی کسی دوسرے ملک بالخصوص افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی، صرف ریاست، افواج، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی پاکستانی عوام کی سکیورٹی کے ضامن ہیں، افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں، دہشتگردوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے، افغان مہاجرین کے حوالے سے گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں۔

کور ہیڈ کوارٹرز پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ انہوں نے خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد صوبہ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینا ہے، افواج پاکستان کے تجدید عزم کیلئے آیا ہوں، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں، ہم سب نے خیبرپختونخوا کے غیور عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔

انہوں نے صوبے میں انسداد دہشت گردی آپریشن کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 2024 کے بعد خفیہ اطلاعات پر 14ہزار 535 آپریشنز کیے، یومیہ بنیاد پر کیے گئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی تعداد 40 بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2024 میں آپریشن کے دوران 769 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن کی یومیہ تعداد 2.1 بنتی ہے، ان آپریشنز کے دوران 577 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں پاک فوج کے 272 بہادر افسران اور جوان، پولیس کے 140 جبکہ 165 معصوم پاکستانی شہری شامل ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جاچکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے، جن یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران 516 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جس میں پاک فوج کے 311 افسران و جوانان، پولیس کے 73 اہلکار اور 132 معصوم شہری شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں آپریشن کے دوران واصل جہنم واصل ہونے والے خارجیوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے تو ایک سال میں مارے گئے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سالوں میں مارے گئے خارجیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، اسی طرح گزشتہ سال مارے گئے خارجیوں کی تعداد اس سے گزشتہ 9 سالوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھی۔انہوں نے کہا کہ صرف 2024 اور 2025 میں پاکستان جہنم واصل کیے جانے والے افغانیوں کی تعداد 161 بنتی ہے، اس کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے دخل اندازی کرتے ہوئے 135 خارجی مارے گئے جبکہ 2 سال میں خود کش حملے کرنے والے 30 حملہ آور میں افغان شہری تھے، یہ اعداد و شمار افغانستان کو بھارت کے دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر عیاں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گٹھ جوڑ مکمل مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ 2014 میں سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان نکات پر کام کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2021 میں پچھلی صوبائی حکومت نے جن نکات پر کام ہوچکا تھا انہیں خارج کرکے 14 نکات پر مشتمل نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور تمام سیاسی عمائدین، تمام سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان 14 نکات پر کام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھی اسی ایکشن پلان کو وژن عزم استحکام کا نام دیا، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی اولین وجہ یہ ہے کہ ان نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہاکہ ایکشن پلان کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو مارنا ہے، صرف یہی ایک نکتہ زمینی کارروائیوں سے تعلق رکھتا ہے، کیا اس پر کام ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا، صرف خیبرپختونخو امیں سیکیورٹی ایجنسیاں یومیہ 40 سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کررہی ہیں کہ نہیں کررہیں، اس سال ہم نے 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا؟ کیا ہمارے شہدا اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ پہلے نکتے پر کام ہور ہا ہے اور بالکل ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ باقی 13 نکات کا بھی احاطہ کرلیا جائے کہ ان پر کیا کام ہورہا ہے، انہوں نے کہا کہ دوسرا نکتہ تھا کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاستدان یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں گے، یہ ہم نے نہیں کہا، تمام سیاسی عمائدین اور سیاسی جماعتیں 2014 سے اس بات پر متفق ہیں، کیا ہم اس بیانیے پر کھڑے ہیں؟ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2016 سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ان عوامل کو جاننا ضروری ہے جن کی وجہ سے آج دہشت گردی موجود ہے، انہوں نے دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات بھی بیان کیں۔

نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا،دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا،بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا، افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی، مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اس ملک کے سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے لیے اپنے عدالتی نظام کو مضبوط کرنا ہے لیکن ابھی ہم کہاں کھڑے ہیں کہ اگست 2025 میں خیبرپختونخوا کی انسداد دہشت گردی عدالتوں سے کسی دہشت گرد کو سزا نہیں ہوئی، 34 مقدمات زیر التو ہیں، 2878 زیرالتوا مقدمات 3 سال سے کم عرصے جبکہ 1706 مقدمات کو 3 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔

دہشت گردی اور غیرقانونی کاروبار کے گٹھ جوڑ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے پیشے غیرقانونی کاروبار کا گٹھ جوڑ ہے، منشیات کے 10 ہزار 87 کیسز میں سے صرف 679 مجرموں کو سزا ہوئی جبکہ غیرقانونی ہتھیاروں کے 33 ہزار 389 مقدمات میں صرف 6 ہزار 945 مجرموں کو سزا ہوئی، انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف عدالتی مہم کی یہ صورتحال ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو مضبوط کرنا ہے مگر اس وقت سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی آپریشنل صلاحیت 3200 ہے، دہشت گردی آپ کے سامنے ہے، کیا یہ تعداد کافی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم خیبرپختونخوا کی بہادر پولیس اور سی ٹی ڈی کو سلام پیش کرتے ہیں، مگر اس کی تعداد صرف 3200ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے اندراج کا فیصلہ ہوا تھا مگر ہم اب تک صوبے میں 4 ہزار 355 تقریبا 55 فیصد مدارس کا آج تک اندراج ہوسکا ہے، ابھی اندراج ہی مکمل نہیں ہوسکا تو نصاب ایک کرنا اور اس کے اوپر نگرانی کرنا تو الگ بات ہے۔

انہوں نے کہا اگر سوال یہ ہے کہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہورہی تو ان سوالات کا جواب بھی دیں۔ ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ آواز نہیں آتی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں، کیا ہم اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہے ہیں؟ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے ؟ اگر حل مسئلے کا حل بات چیت میں ہے تو جب 6 اور 7 مئی کو بھارت نے پاکستان پر میزائل مارے، معصوم بچوں، خواتین، مدرسوں اور مساجد کو شہید کیا تو اس ملک کے عوام نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کرلیتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر ہر مسئلے کا بات چیت میں ہوتا تو کوئی غزوہ ہوتی، نہ جنگیں ہوتیں اور نہ مہمات ہوتیں، اگر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرور کونین جن کے لیے دو جہان بنائے گئے، وہ ذات جس سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں، انہوں نے اس دن کیوں بات چیت نہیں کرلی؟ ادھر تو باپ کے بیٹا، بھائی کے آگے بھائی، قریشی کے آگے قریشی اور اموی کے آگے اموی کھڑا تھا، کیوں نہیں بات چیت کرلی؟ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ آپ کے عمائدین نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم بیانیہ بنائیں گے مگر گمراہ کن بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے نہیں ہمارے سیاستدانوں، تمام صوبائی حکومتوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے دہشت گردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو توڑنا کرنا ہے، غیرقانونی کاروباروں، منشیات، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ناسور سے اپنے خطے کو پاک کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ناسوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، تو ان عناصر کی پشت پناہی کے لیے مختلف سیاسی اور مقامی سطح سے آوازیں آتی ہیں، فیصلہ تو آپ نے کیا تھا کہ اس کو ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ بذات خود ایک مجرمانہ عمل نہیں ہے؟ کہ گورننس، کارکردگی، صلاحیت اور استعداد کار اور سی ٹی ڈی کو بڑھانے اور عدالتی نظام کو مضبوط بنانے اور غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے ایک کنفیوژن اور ابہام پیدا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں، گورننس کے خلا کو پاک فوج کے افسران، جوان، پولیس کے افسر اور جوان، بچے اور ہمارے ادارے اپنے خون سے پر کررہے ہیں، حکومتی خلا کو پاکستان اور خیبرپختونخوا کے عوام روزانہ اپنے خون سے پر کررہے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ اگر گورننس کے خلا کو پر نہیں کرنا اور متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا تو پھر خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے ناسور سے کیسے چھٹکارا ملے گا؟ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ ریاست پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے حوالے سے جو جھوٹا، فرضی اور من گھڑت بیانیہ بنایا جارہا ہے اور شہدا اور افواج پاکستان اور پولیس کی قربانیوں کی جو تضحیک کی جاتی ہے، یہ سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کے مزموم عزائم کی عکاسی کرتی ہے، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچے یہی سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 2014 اور پھر 2021 میں بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ افغانوں کو واپس بھیجنا ہے، تو آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ ان کو واپس نہیں بھیجنا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ 2014 اور 2021 میں غلط تھے، اور جب افغانستان میں امن آچکا ہے اور وہاں کوئی قابض افوج نہیں ہے، تو کئی دہائیوں تک افغان بھائی کی مہمان نوازی کرنے والی ریاست انہیں واپس جانے کا کہتی ہے تو اس پر سیاست کی جاتی ہے، اس پر بیانیے بنائے جاتے ہیں اور گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دوحہ معاہدے پر میں کہا گیا کہ افغان سرزمین نہ صرف امریکا بلکہ خطے میں بھی کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر آپ کیسامنے اعداد و شمار رکھے ہیں کہ کتنے افغان تشکیلات میں آتے ہیں، کتنے ہم نے ختم کیے اور کتنے افغان خودکش حملوں میں شامل ہیں، تو پھر کیسے افغان سرزمین خوارج اور دہشت گردوں کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہورہی ہے؟ انہوں نے کہاکہ امریکا افغانستان سے گیا تو اس کا چھوڑا ہوا اسلحہ بڑی تعداد میں خوارج کے پاس گیا، امریکا کی اپنی سگار کی 2024 کی رپورٹ کہتی ہے کہ امریکی فوج 7.2 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار افغانستان چھوڑ کر گئی۔

ترجمان پاک فوج نے خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران مارے گئے خارجیوں سے برآمد امریکی ہتھیاروں کی تصاویر بھی دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 3 ماہ میں دہشت گردی کے 3 ہزار 984 واقعات پیش آئے، ان میں سے 70 فیصد خیبرپختونخوا میں کیوں پیش آئے؟ یہ بڑا منطقی سوال ہے، جو نوجوان اور سوشل میڈیا بھی کرتا ہے، دہشت گردی کے یہ واقعات پنجاب اور سندھ میں کیوں نظر نہیں آتے؟ انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ دہشت گرد ان صوبوں میں کام نہیں کرنا چاہتے اور اپنے نظریات کی وہاں ترویج نہیں چاہتے، نہیں اسکی قطعی یہ وجہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صوبوں میں گورننس قائم ہے، وہاں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم ہیں اور وہاں پر سیاست اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ کام نہیں کررہا، صرف یہی وجہ ہے جبکہ ہمارے اس عظیم صوبے میں بجائے اس کے کہ دہشت گردی کو کارکردگی، گورننس اور قانون کی عملداری سے ختم کیا جائے، اسے صوبائیت کا رنگ دیاجارہا ہے اور پر سیاست کی جارہی ہے۔

انٹرنیوز
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!