دوستی کی شاہراہ
یہ ایک ایسی شاہراہ ہے جس کی تعمیر خون پسینے سے ہوئی۔
یہ تاریخ ہے باہمی تعاون کی جو آج کی شراکت داری اور دو طرفہ فائدے کی علامت ہے۔
لوگ اسے محبت سے چین پاکستان دوستی ہائی وے کے نام سےپکارتے ہیں
قراقرم ہائی وے، چین اور پاکستان کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے۔
دونوں ملکوں کے عوام نے فلک بوس پہاڑوں اور قدرتی رکاوٹوں کو چیر کر بیسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی میں یہ راستہ بنایا۔
علی احمد جان، نگہبان، پاکستانی قبرستان
ہمارا علاقہ اس وقت بہت پسماندہ تھا۔
لیکن جب ہمارے چینی بھائی قراقرم ہائی وے بنانے آئے
سب کچھ بدل گیا، خوشحالی آ گئی۔
احمد کو وہ دن آج بھی یاد ہیں۔
2015 میں، انہیں صدر شی جن پھنگ کی جانب سے "پانچ اصولوں پر مبنی پرامن بقائے باہمی ایوارڈ” سے نوازا گیا۔
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت میں،
وہ 47 برس سے چینی شہدا کے قبرستان کے رضا کارانہ نگران ہیں۔
یہاں 88 چینی ورکرز آسودہ خاک ہیں جنھوں نے اس راستے کی تعمیر میں اپنی جان کی قربانی دی۔
میں ان چینی مزدوروں کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔
میں ان سے محبت کرتا ہوں۔
ہم بیٹھ کر گپ شپ لگایا کرتے تھے۔
حادثے کے بعد، جب وہ جان سے گئے
میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی زندگی ان کی قبروں کی دیکھ بھال کے لیے وقف کر دوں گا۔
لی لی، سابق چینی تعمیراتی کارکن، قراقرم ہائی وے
وہاں کوئی سڑک نہیں تھی۔
تعمیراتی کارکنان صرف کھڑی چٹانوں پر بنے کچے راستوں پر چلتے تھے۔
لیکن کسی نے شکایت نہیں کی۔
وہ ہاتھ سے گاڑی دھکیلتے تھے، جیسے دوڑ رہے ہوں۔
وہ جانتے تھے کہ اگر صبح نکلے تو شام کو شاید زندہ واپس نہ آئیں۔
پھر بھی انھوں نے چین پاکستان دوستی ہائی وے مکمل کی۔
یو باؤ ہوائی، سابق تعمیراتی کارکن
یہ کام نہایت خطرناک تھا۔ چٹانیں گرتیں اور کیچڑ کے تودے آتے۔
باہر جانے سے پہلے، ہمارے کیمپ کے تمام لوگوں کے خون کے نمونے لیے گئے۔
جب بھی کوئی زخمی ہوتا اور خون کی ضرورت پڑتی،
اور اگر کسی کا خون میچ کرتا، فوراً اطلاع دی جاتی۔
اس شاہراہ کی تعمیر چین کے بھرپور تعاون سے ممکن ہوئی
جس نے شمالی پاکستان کو بیرونی دنیا سے جوڑنے کا خواب پورا کر دیا۔
جب ہم پہلی بار پاکستان کی مدد کو آئے، تووہ جگہ سڑک کی تعمیر کے بعد کے منظر سےبہت مختلف تھی۔
لیکن جب ہائی وے مکمل ہوئی، پاکستانیوں نے ہماری بہت تعریف کی۔
گے شِن ہونگ، تاریخ دان
اگرچہ اس علاقے کی زبان مختلف تھی
لیکن تعمیر میں شامل عملہ اشاروں اور حرکات سے گفتگو کر لیتا۔
رخصت کے وقت، دونوں ممالک کے لوگ شدید غمزدہ اور اشک بار ہو جاتے۔
ہم نے قبروں کے قریب درخت لگائے۔
آج ہم 717 درخت لگا چکے ہیں
جو ان کی روحوں کے لیے برکت کا ذریعہ ہیں۔
اب ہمارے بچے بھی ہمارے ساتھ قبرستان کا خیال رکھتے ہیں۔
ہم اسکے کے بہت معترف ہیں۔
اس نے بغیر کسی صلے کے قبروں کی دیکھ بھال کی۔
اب جب ہم پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو قبرستان ضرور جاتے ہیں
اور اس بوڑھے شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
آج قراقرم ہائی وے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کا ایک اہم ستون ہے۔
یہ شاہراہ چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور کی تعمیر اور توسیع کی علامت ہے۔
اسکی توسیع نسل در نسل دوستی کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہے۔
ڈنگ وے، چائنہ روڈ اینڈ برج کارپوریشن، پاکستان دفتر
قراقرم ہائی وے کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے بعد اس کی اعلیٰ معیار کی انجینئرنگ، آرام دہ اور محفوظ سفر نے پاکستان کے ہر طبقے سے داد پائی ہے۔
یہ شاہراہ چین پاکستان تجارت اور ثقافتی روابط کے لیے زبردست سہولت بن گئی ہے۔
ذرا تصور کریں،
اگر قراقرم ہائی وے نہ ہوتی
تو کیا چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور ممکن ہوتا؟
اس شاہراہ کو مزید پائیدار اور دوستی کو مزید مضبوط بنانا ہی
بزرگوں کے جذبے کو آگے بڑھانے کا بہترین طریقہ ہے۔
خنجراب پورٹ، قراقرم ہائی وے کے ایک اہم مرکز کے طور پر اب چین اور پاکستان کے درمیان تجارت اور عوامی روابط کی سرگرم گزرگاہ بن چکی ہے۔
گوان رن شیاؤ، خنجراب بارڈر انسپکشن اسٹیشن
خنجراب پورٹ نے گزشتہ دسمبر سے موسمی کی بجائے سال بھر جاری رہنے والا نظام شروع کردیا ہے۔
کیونکہ چین پاکستان عوامی رابطوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔
لیو زینڈونگ، خنجراب کسٹمز
چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور کے بہت سے منصوبوں کے لیے سامان کی ترسیل اسی شاہراہ کے ذریعے ہوتی ہے۔
یہ شاہراہ گوداموں، نقل و حمل کے مراکز، ، ہوٹلوں اور دیگر مقامی صنعتوں کی ترقی کا باعث بنی ہے۔
اس شاہرہ کے ذریعے ہونے والی تجارت نے سرحدی علاقوں میں ترقی اور بنیادی سہولیات کی تعمیر
اور مقامی افراد کے لئے روزگار میں اضافہ کیا ہے۔
حسن محمد، پاکستانی تاجر
یہ پاکستان کے اندر کسی بھی منزل تک پہنچنے کا تیز ترین راستہ ہے۔
اس سڑک پر سفر کے دوران، ہم دیواروں پر لکھے جملے دیکھتے ہیں: "پاک چین دوستی، پاکستان چین بھائی بھائی”۔
میرے خیال میں ہم واقعی بھائی ہیں۔
منیب رحمان، پاکستانی طالبعلم، لان ژو یونیورسٹی
یہ سڑک میرے لیے ناقابل یقین ہے۔
میری خواہش ہے کہ مستقبل میں مزید ایسے منصوبے ہوں
جو ہماری دوستی کو مزید مضبوط بنائیں
اور پاکستان، چین دونوں کو فائدہ دیں۔
اب، چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور میں ہائی وے، بندرگاہیں، ہوائی اڈے، بجلی گھر، اسپتال اور اسکول شامل ہیں۔
چین وسط ایشیا گیس پائپ لائن سے لے کر چین،کرغیزستان، ازبکستان ریلوے تک
چائنا یورپ ریلوے ایکسپریس سے لے کر ٹرانس کیسپیئن انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کاریڈور تک،
چین، شنگھائی تعاون تنظیم کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر
علاقائی ترقی اور عوامی فلاح کے لیے مربوط ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
دوستی کی یہ سڑک ہر دن مزید وسعت اختیار کر رہی ہے۔

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link