آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت محکموں و اداروں کے امور میں 3750 کھرب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں، مالی بدانتظامی اور قومی خزانے کو نقصان کی نشاندہی کی ہے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
اے جی پی نے سخت تشویش ظاہر کی کہ عوامی فنڈز کا صرف 13 فیصد عوامی فلاح پر خرچ ہوا، جس نے ملک کے مالیاتی امور پر سنگین سوالات کھڑے کردیے۔
آڈٹ سال 25-2024 کی اپنی رپورٹ میں اے جی پی نے وفاقی حکومت کے اکاؤنٹس، بشمول وزارتوں، ڈویژنز اور دیگر حکومتی اداروں کے مالی سال 2024 کے حسابات کا جائزہ لیا، رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ان بے ضابطگیوں کا بار بار سامنے آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یا تو نگرانی کا نظام ناکافی ہے یا اندرونی کنٹرول کے ڈھانچے میں خامیاں ہیں‘۔
رپورٹ میں اضافی گرانٹس کی غیر ضروری الاٹمنٹ، عوامی فنڈز کا بلاک ہونا، پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر بھاری اضافی گرانٹس، ضرورت کے بغیر بجٹ کا مطالبہ اور بعد میں اس کی واپسی، وقت پر فنڈز واپس نہ کرنے سے ان کا ضائع ہوجانا اور مالی وعدوں کو ریکارڈ نہ کرنے جیسے مسائل کی نشاندہی کی گئی، جس سے بجٹ مینجمنٹ کمزور رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اخراجات کا 96.26 فیصد عام عوامی خدمات پر خرچ ہوا، جس میں 86.69 فیصد قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی پر صرف ہوا (23-2022 میں یہ شرح 91.42 فیصد تھی)۔
یوں وفاقی حکومت کے پاس سماجی و معاشی کاموں کے لیے محض 13.31 فیصد فنڈز بچے، جو پچھلے سال کے 8.58 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
اہم آڈٹ نکات میں 2841 کھرب 70 ارب روپے کی خریداری سے متعلق بے ضابطگیاں، 856 کھرب روپے کے ناقص، نامکمل یا تاخیر سے ہونے والے ترقیاتی کام، اور 25 کھرب روپے کی وصولیوں و ریکوری سے متعلق مسائل شامل ہیں۔
دیگر نکات میں 12 کھرب 28 ارب روپے کے گردشی قرض کے تصفیے نہ ہونا، 958 ارب روپے کی قانون و ضوابط کی خلاف ورزیاں، 677.5 ارب روپے کے کمزور اندرونی کنٹرول، 628 ارب روپے کی ناقص اثاثہ جاتی مینجمنٹ اور 281 ارب روپے کی ناقص معاہدہ جاتی مینجمنٹ شامل ہیں۔
165 ارب روپے کی متفرق مالی بے ضابطگیاں، 73 ارب روپے کی ’ویلیو فار منی‘ اور سروس ڈلیوری سے متعلق مسائل، اور 92 ارب روپے کا نقصان حکومت کے حصے کی وصولی نہ ہونے اور سرکاری زمین پر قبضے کے باعث سامنے آیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ کئی حکومتی اداروں کے اندرونی آڈٹ سیٹ اپ موجود ہیں، لیکن موجودہ آڈٹ میں سامنے آنے والی بے ضابطگیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ نظام مؤثر طریقے سے کام نہیں کرسکا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اگر اندرونی آڈٹ مؤثر طریقے سے چلتا تو انتظامیہ کو کنٹرول بہتر کرنے اور اداروں میں مالی نظم قائم رکھنے میں مدد ملتی‘۔
آڈٹ تجزیے میں پائی جانے والی خامیوں اور کمیوں کو اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر)، کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس (سی جی اے)، وزارت خزانہ، اور متعلقہ وزارتوں و ڈویژنز کے پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کے ساتھ شیئر کیا گیا تاکہ درستی کے اقدامات کیے جاسکیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2024 کے لیے 29 فیصد (513.87 ارب روپے) اضافی گرانٹس پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر جاری کی گئیں، جو غیر مجاز اقدام تھا، 12 گرانٹس کے تحت بچت کو واپس نہ کرنے سے 212.08 ارب روپے ضائع ہوگئے جبکہ 12.6 ارب روپے کے اخراجات منظور شدہ گرانٹس سے زیادہ تھے۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 24-2023 کے لیے کل بجٹ 465 کھرب 70 ارب روپے تھا، تاہم کٹوتی اور اضافی گرانٹس کے بعد یہ 403کھرب15 ارب رہ گیا، اصل اخراجات 399کھرب 45 ارب روپے رہے، جس میں 369.97 ارب روپے (0.92 فیصد) کی بچت سامنے آئی جو حتمی بجٹ سے کم تھی۔
مجموعی طور پر وفاقی حکومت نے 17کھرب 65 ارب روپے کی اضافی گرانٹس منظور کیں، جن میں سے 513.87 ارب روپے پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوئے، وزارت خزانہ کا مؤقف تھا کہ غیر منظور شدہ گرانٹس اگلے بجٹ میں ریگولرائزیشن کے لیے پیش کی جائیں گی۔
آئین کے آرٹیکلز 169 اور 170 کے تحت اے جی پی کو وفاقی و صوبائی حکومتوں اور ان کے ماتحت اداروں کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنے کا اختیار ہے۔
وفاقی حکومت کی یہ مجموعی آڈٹ رپورٹ 7,879 وفاقی اداروں کے اکاؤنٹس پر مبنی ہے جن کا آڈٹ مالی سال 24-2023 کے لیے کیا گیا، اور اس میں پچھلے سالوں کی کچھ مشاہدات بھی شامل ہیں۔
آڈٹ 25-2024 کے دوران ٹیسٹ چیک کی بنیاد پر کیا گیا تاکہ اہم مالی بے ضابطگیوں کو اسٹیک ہولڈرز کے سامنے لایا جا سکے، کم اہم مسائل متعلقہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کے ساتھ اٹھائے جائیں گے اور اگر حل نہ ہوئے تو انہیں آئندہ سال کی آڈٹ رپورٹ میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے لایا جائے گا۔
اے جی پی نے دعویٰ کیا کہ اس کے آڈٹ اقدامات نے اداروں کے کنٹرول میکانزم کو بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے اور جہاں اداروں نے سفارشات پر عمل کیا وہاں مالی نظم و ضبط اور قوانین کی پاسداری میں بہتری آئی ہے۔
