جمعرات, اگست 21, 2025
پاکستانپاکستانی سائنس دان چین میں کیلے کی بیماریوں کے خلاف سرگرم

پاکستانی سائنس دان چین میں کیلے کی بیماریوں کے خلاف سرگرم

چین کے جنوبی صوبے ہائی نان کے شہر سانیا میں وسیم رضا(دائیں) کیلے کے تجرباتی کھیت میں پودے کا جائزہ لیتے ہوئے-(شِنہوا)

 ہائیکو(شِنہوا)چین کے جنوبی صوبے ہائی نان کے شہر سانیا میں واقع یاژو بے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی کے ایک کیلے کے کھیت میں پاکستانی سائنس دان وسیم رضا ہر صبح بڑی باریکی سے پودوں کے تنوں، پتوں اور پھلوں کے گچھوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ رات کو وہ لیبارٹری میں مگن ہوتے ہیں۔ وہ مائیکروسکوپ کے نیچے جھک کر مشاہدہ کرتے ہیں یا آدھی رات کے بعد تک ڈیٹا کا تجزیہ کرنا ان کا معمول ہے۔

  45 سالہ وسیم رضا کیلے کی بیماریوں کے خلاف جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا چکے ہیں۔

   وسیم کا چین کا سفر 2005 میں نان جِنگ زرعی یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم سے شروع ہوا۔ دسمبر 2009 میں گریجویشن کے بعد وہ 12 سال تک اسی یونیورسٹی میں لیکچرر رہے۔ اس سال وہ چائنیز اکیڈمی آف ٹراپیکل ایگریکلچرل سائنسز (سی اے ٹی اے ایس) سے بطور سینئر محقق وابستہ ہوئے اور اب وہیں ایک لیبارٹری میں کام کر رہے ہیں۔

 ان کی تحقیق کا محور مٹی کی ایکولوجی، مائیکروبیالوجی اور پودوں اور جرثوموں کے باہمی تعلقات ہیں تاکہ کیلے کی ایک خطرناک بیماری فوزیریم ولٹ  کا مقابلہ کیا جا سکے جو ’’کیلے کا کینسر‘‘ بھی کہلاتی ہے۔اس بیماری نے کبھی چین کی کیلے کی صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

وسیم نے کہا کہ میرا کام کیلے کی صحت کی حفاظت کرنا ہے۔ میں موثر طریقے تلاش کرتا ہوں تاکہ بیماری پر قابو پایا جا سکے اور صنعت کی ترقی کو سہارا ملے۔

برسوں کی تحقیق کے بعد سی اے ٹی اے ایس اور دیگر اداروں نے نہ صرف بیماری کے خلاف مزاحم اقسام تیار کی ہیں بلکہ ماحول دوست، بیماری پر قابو پانے والی ٹیکنالوجیز بھی ایجاد کی ہیں جنہوں نے اس صنعت کو دوبارہ زندہ کیا۔ پاکستان میں جہاں  کیلا آمدنی کا اہم ذریعہ بھی ہے، مقامی کسان آج بھی اس طرح کے چیلنجز سے دوچار ہیں۔

رضا اور ان کی ٹیم اب ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں جسے وہ "سبز انقلاب” کہتے ہیں۔ وہ بیکٹیریا سے خارج ہونے والے مرکبات استعمال کر رہے ہیں جو بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کو ختم کرتے ہیں اور پودوں کی نشوونما کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے لیبارٹری تجربات مکمل کرلئے ہیں۔

وسیم نے کہا کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو رواں یا اگلے سال کھیتوں میں متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ فوزیریم ولٹ کے خلاف اثرات کو بائیو آرگینک کھاد کے ذریعے بڑھایا جائے۔

وسیم چین اور پاکستان کے درمیان تعاون کے ذریعے ان ٹیکنالوجیز کو پاکستان میں بھی متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ چینی اور مقامی تحقیق کو یکجا کرکے وہ دونوں ممالک کی کیلے کی صنعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

سی اے ٹی اے ایس کے معاون محقق چھن یوفینگ نے کہا کہ رضا کی مہارت نے نہ صرف ٹیم کو مضبوط کیا بلکہ ان کی عالمی رسائی میں بھی اضافہ کیا۔

چھن کا کہنا تھا کہ ایسے سرحد پار تعاون سے ہمیں ترقی پذیر ممالک کو درپیش زرعی چیلنجز کا بہتر طور پر سامنا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 رضا کی کہانی ایک وسیع رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ حالیہ برسوں میں چین اور پاکستان کے درمیان سائنسی تعاون میں تیزی آئی ہے اور یاژو بے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی ایسے باہمی تبادلے کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ وسیم رضا جیسے پاکستانی سائنس دان اب مشترکہ منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور دونوں ممالک کی مہارت کے درمیان پل کا کام انجام دے رہے ہیں۔

رضا نے کہاکہ چین اور پاکستان بہت اچھے دوست ہیں۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، شنگھائی تعاون تنظیم اور پاکستان-چین اقتصادی راہداری جیسے تعاون کے پلیٹ فارمز کا ذکر کیا۔

چین میں 20 سال گزارنے کے بعد رضا اس ملک کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ انہوں نے سانیا میں اپنا خاندان بھی بنایا ہے۔ وہ یہاں کے ساحلی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کام کے بعد اکثر ساحل پر چہل قدمی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی انہیں مقامی زندگی سے ہم آہنگ کرنے اور کھانوں سے متعارف کرانے میں مدد کرتے ہیں۔

اگرچہ ان کا معاہدہ 2030 تک ہے۔ رضا پہلے ہی مستقبل کے طویل مدتی منصوبے بنا چکے ہیں اور سانیا میں مستقل طور پر آباد ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وسیم کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان کے درمیان زرعی تعاون کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ میں مشترکہ تحقیق میں اپنا حصہ ڈالتا رہوں گا۔ امید ہے کہ ہمارے سائنس دانوں کے درمیان تعاون مزید گہرا ہوگا تاکہ دونوں ممالک میں کیلے کی پیداوار اور معیار میں اضافہ ہو سکے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!