اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینمیانمار میں زرعی مزدوروں کی شدید کمی، دیہی خواتین نے کھیتی باڑی...

میانمار میں زرعی مزدوروں کی شدید کمی، دیہی خواتین نے کھیتی باڑی کا کام سنبھال لیا

جیسے ہی منگل کی صبح سورج کی کرنیں دھان کے کھیتوں پر پڑ رہی تھیں تو اس وقت خواتین کا ایک گروپ گارے بھرے پانی میں تیزی سے چل رہا تھا۔ یہ خواتین انتہائی ترتیب سے دھان کی پنیری لگا رہی تھیں۔

خواتین کے قہقہوں کی آوازیں دور ہل چلاتی مشین کی گونج سے بلند تھیں۔یہ خواتین یانگون کے علاقے میں ٹوانٹے ٹاؤن شپ کے اس گاؤں کی رہائشی نہیں ہیں۔وہ ایسی محنت کش خواتین ہیں جو پورے میانمار میں سفر کر کے کھیتوں میں کام کر رہی ہیں تاکہ مقامی نوجوانوں کی نقل مکانی کے باعث پیدا ہونے والی مزدوروں کی کمی پوری کی جا سکے۔

کبھی دھان کی کاشت ایک اجتماعی روایت ہوا کرتی تھی جس میں پورے گاؤں کے لوگ حصہ لیتے تھے مگر اب یہ روایت بدل رہی ہے۔ یانگون، باگو اور ایراوڈی کے دیہی علاقوں میں اب بہت سے کھیتوں کو مقامی مزدوروں کی شدید کمی کے ایک سنجیدہ مسئلے کا سامنا ہے۔

33 سالہ آنگ پھیو مِن کا تعلق یانگون ریجن کے علاقے ٹوانٹے سے ہے جو 10 ایکڑ پر پھیلے دھان کے کھیتوں کے مالک ہیں۔ وہ اپنے چچا کے کھیت کے کنارے کھڑے ہو کر مزدوروں اور مشینوں کو ایک ساتھ کام کرتا  دیکھ رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں یہاں کا تقریباً ہر خاندان کھیتوں میں مصروف نظر آتا تھا۔ اب زیادہ تر نوجوانوں نے روزگار کی خاطر یا تو یانگون کے شہری علاقوں کا رخ کر لیا ہے یا ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔جو لوگ یہاں رہ گئے ہیں وہ یا تو بہت بوڑھے ہیں یا کسی اور کام سے منسلک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مشینی نظام نے مدد ضرور فراہم کی ہے۔ ٹریکٹر اور ہارویسٹرز نے بڑے رقبے پر کام کی رفتار میں تیزی لائی ہے۔ لیکن مشینیں سب کچھ تو نہیں کر سکتیں۔ خاص طور پر دھان کی نازک اور درست پنیری لگانے جیسے کام کے لئے  مہارت رکھنے والے انسانی ہاتھوں کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔

ان میں سے بہت سی خواتین کے لئے کھیتی باڑی محض ایک روزگار نہیں بلکہ زندگی کا سہارا ہے۔یہ  کمائی انہیں بچوں، بہن بھائیوں اور عمر رسیدہ والدین کے اخراجات پورے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بیشتر خاندانوں کے مرد شہروں میں جا کر تعمیراتی مقامات یا فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں جبکہ خواتین کھیتوں میں محنت کرتی ہیں۔

یو کیاو تون آئے وزارت زراعت، لائیو اسٹاک اور آبپاشی کے تحت زرعی مشینری کے شعبے کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے والے زرعی مزدوروں کی جگہ اب مشینری لے رہی ہے جبکہ حالیہ برسوں میں زرعی مشینوں خصوصاً کمبائن ہارویسٹرز کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

میانمار میں مون سون کے سیزن کے دوران تقریباً  ایک کروڑ 50 لاکھ ایکڑ پر دھان کی کاشت کی جاتی ہے۔  گھوم کر کام کرنے والی یہ  محنت کش خواتین آج بھی کھیتوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

یانگون، میانمار سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹیکسٹ آن سکرین:

1۔یانگون کے کھیتوں میں محنت کش خواتین دھان کی پنیری لگا رہی ہیں

2۔ گارے بھرے پانی میں کام کرتی مزدور خواتین کی آوازیں ہر سمت گونجتی سنائی دیتی ہیں

3۔ یہ خواتین دوسرے علاقوں سےکام کی تلاش میں یہاں  آئی ہیں

4۔ مقامی نوجوانوں نے روزگار کے لئے شہروں، بیرون ملک کا رخ کر لیا ہے

5۔یانگون، باگو اور ایراوڈی کے علاقے کو زرعی مزدوروں کی شدید کمی کا سامناہے

6۔  ان خواتین کی وجہ سےکھیتوں میں مزدوروں کی کمی پوری ہوتی ہے

7۔  ماضی میں گاؤں کے لوگ مل کر کھیتی باڑی کیا کرتے تھے

8۔ مشینوں کے باوجود دھان کی پنیری انسانی ہاتھوں سے ہی ممکن ہے

9۔خواتین کی کمائی سے گھر، بچے اور بوڑھے والدین کا سہارا جڑا ہے

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!