ایک تھرمل امیجنگ سے لیس بغیر پائلٹ فضائی گاڑی (یو اے وی) شیانگ یانگ ہونگ 10 جہاز سے جنوبی بحیرہ چین کے شمالی پانیوں میں سائنسی تحقیق کے لیے پرواز کر رہی ہے۔(شِنہوا)
منیلا (شِنہوا) ایک ماہر نے کہا ہے کہ فلپائن کی جانب سےیکطرفہ طور پر شروع کردہ 2016 کا نام نہاد بحیرہ جنوبی چین ثالثی فیصلہ اس ملک کے لیے اقتصادی، سفارتی اور علاقائی سطح پر کئی مسائل کو جنم دے چکا ہے۔
منیلا میں قائم تھنک ٹینک ایشین سینچری فلپائنز اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے صدر ہرمن تیئو لورل نے شِنہوا کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ منیلا نے صرف وکلا کی فیسیں اور قانونی اخراجات ادا کرنے کے لیے 3 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے جسے فلپائن کے آڈٹ کمیشن نے غیر ضروری اور حد سے زیادہ قرار دیا۔
لورل نے کہا کہ یہ ثالثی فیصلہ حقیقت میں فلپائنی عوام کے گلے میں ایک طوق بن چکا ہے جو ملک پر معاشی بوجھ ڈال رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے 2016 کے ثالثی فیصلے سے پیدا ہونے والے بے شمار مسائل کو واضح کیا ہے جس نے فلپائن کو اقتصادی اور سفارتی نقصان پہنچایا ہے اور پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اس نام نہاد فیصلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے سبب علاقائی امن اور استحکام خطرے میں ہے۔
لورل نے کہا کہ ثالثی فیصلہ فلپائن کو اس کے آسیان خاندان سے خاموش علیحدگی کا ذریعہ بن گیا ہے کیونکہ وہ چین کے ساتھ تنازع میں ہے جبکہ بحیرہ جنوبی چین کے تنازعات میں ملوث ممالک سمیت باقی تمام ممالک چین کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link