چین کے جنوبی گوانگ شی ژوانگ خودمختار خطے کے شہر نان نِنگ میں گوانگ شی میڈیکل یونیورسٹی سے الحاق شدہ پہلے ہسپتال میں لاؤس سے تعلق رکھنے والی 7 سالہ لڑکی نینا طبی عملے کے ہمراہ ٹرانسپلانٹ وارڈ کی جانب جا رہی ہے-(شِنہوا)
نان نِنگ(شِنہوا)لاؤس سے تعلق رکھنے والی 7 سالہ نینا میں جب تھیلیسیمیا کے بڑے مرض کی تشخیص ہوئی تو اس کے خاندان پر گویا غم کا سایہ چھا گیا۔
یہ ایک ایسا موروثی مرض ہے جو جسم کی ہیموگلوبن بنانے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وہ پروٹین ہے جو خون کے سرخ خلیوں میں آکسیجن پورے جسم تک پہنچاتا ہے۔ اس بیماری کا مطلب تھا کہ مریضہ کو ایسے مستقبل کا سامنا تھا جس میں اسے خون میں زہریلی آئرن جمع ہونے کے باعث ہر ماہ خون کی منتقلی اور مخصوص ادویات کی طویل اور کٹھن تھراپی سے گزرنا تھا۔
مناسب علاج نہ ہونے کی صورت میں جسم میں آئرن کی زیادتی اس کے اعضا کو شدید نقصان پہنچا سکتی تھی جو دل کی بندش اور وقت سے پہلے موت کا باعث بن سکتی تھی۔
نینا کے خاندان نے علاج کی امید لئے 2023 میں چین کے جنوبی گوانگ شی ژوانگ خودمختار خطے کے گوانگ شی میڈیکل یونیورسٹی کے پہلے الحاق شدہ ہسپتال کا رخ کیا جہاں اس مرض پر قابو پانے میں شاندار کامیابیاں حاصل کی جا چکی ہیں۔
ہسپتال کے معروف ہیماٹالوجسٹ ڈاکٹر لیو رونگ رونگ کی نگرانی میں نینا نے 2024 کے آغاز میں ایلوجینک ہیماٹوپوئٹک سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کروایا۔ اس کے والد نے سٹیم سیلز فراہم کئے جن سے نینا کے خون کا پورا نظام ازسرنو تعمیر ہوا۔ وہ ایک ہم آہنگ عطیہ دہندہ تھے۔
ڈاکٹر لیو نے بتایا کہ شدید تھیلیسیمیا میں بالخصوص نوجوان مریضوں کے لئے اب تک یہی طریقہ علاج طبی طور پر ثابت شدہ اور وسیع پیمانے پر دستیاب ہے۔ جدید تکنیکس کی بدولت اب ٹرانسپلانٹ کے خطرات بھی کافی حد تک کم ہوگئے ہیں جن میں عطیہ کرنے والے کے خلیوں کا وصول کنندہ کے جسم پر حملہ،انفیکشن اور گرافٹ کا ناکام ہونا شامل ہے۔
98 دنوں کی سخت نگہداشت کے بعد نینا مارچ میں ٹرانسپلانٹ وارڈ سے باہر آئی۔ وہ خون کی منتقلی کی محتاجی سے آزاد ہوگئی اور ہسپتال میں اس مرض کے لئے کامیاب ٹرانسپلانٹ حاصل کرنے والی پہلی بین الاقوامی مریض بن گئی۔
گوانگ شی میں تقریباً ہر 4 میں سے ایک شخص تھیلیسیمیا کے جین کا حامل ہے، اس لئے اس علاقے کو درپیش اس مرض سے نمٹنا ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔
2010 میں شروع ہونے والی بیماری سے بچاؤ کی مہم کے تحت گوانگ شی نے اس موذی مرض کے خاتمے کی کوششوں کا آغاز کیا۔
علاقے کے صحت کے حکام کے مطابق ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد پیدائش کے وقت شدید تھیلیسیمیا کے کیسز کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہو چکی ہے جبکہ اس کی شرح ہر 10 ہزار پیدائشوں میں 0.3 سے بھی کم ہے۔
