اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینچین-ویتنام مال بردار ٹرین کے ذریعے سامان کی ترسیل میں پہلی ششماہی...

چین-ویتنام مال بردار ٹرین کے ذریعے سامان کی ترسیل میں پہلی ششماہی کے دوران تیزی سے اضافہ

چین کےجنوبی گوانگ شی ژوانگ خودمختار علاقے کے شہر نان نِنگ کی بین الاقوامی ریلوے بندرگاہ پر عملے کے ارکان کنٹینرز کی لوڈنگ کی نگرانی کررہے ہیں-(شِنہوا)

نان نِنگ(شِنہوا)چائنہ ریلوے نان نِنگ گروپ کا کہنا ہے کہ 2025 کی پہلی ششماہی کے دوران چین کے جنوبی گوانگ شی ژوانگ خودمختار علاقے سے ویتنام جانے والی مال بردار ٹرینوں نے مجموعی طور پر 18ہزار 870 ٹی ای یو (20فٹ مساوی یونٹ) برآمدی سامان منتقل کیا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 283 فیصد زیادہ ہے۔

چائنہ ریلوے نان نِنگ گروپ کے نان نِنگ ریلوے نقل وحمل مرکز کے عملے نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران چین-ویتنام مال بردار ٹرینوں کے ذریعے گوانگ شی سے گاڑیوں کے پرزہ جات اور فائبر بورڈ کی برآمدات بالترتیب 2 ہزار 528 ٹی ای یوز اور 4 ہزار 580 ٹی ای یوز تک پہنچ گئیں، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں بالترتیب 100 فیصد اور 398 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین کے مشرقی صوبے جیانگسو اور چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے فاضل پرزے ریلوے کے ذریعے نان نِنگ بین الاقوامی ریلوے بندرگاہ تک پہنچائے جاتے ہیں، جہاں سے انہیں چین-ویتنام مال بردار ٹرینوں کے ذریعے ویتنام روانہ کیا جاتا ہے، یہ نقل و حمل کے لئے ایک نیا ترقیاتی مرکز بن چکا ہے۔

اس سال پروگرام کے مطابق چین-ویتنام مال بردار ٹرینوں کی ہفتہ وار تعداد 5 سے بڑھ کر 14 ہوگئی ہے، جو چین کی برآمدات کے لئے مزید نقل و حمل کے سہولت فراہم کرتی ہے۔ فی الحال گوانگ شی کے دارالحکومت نان نِنگ سے ویتنام کے یین وین تک ان ٹرینوں کا تیز ترین اختتامی سفر صرف 14 گھنٹے ہے۔

اب تک گوانگ شی سے روانہ ہونے والی چین-ویتنام ٹرینیں 380 سے زائد اقسام کے برآمدی سامان کی ترسیل کرچکی ہیں۔ سامان کے ذرائع چین کے 25 صوبائی علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں جن میں جیانگسو، گوانگ ڈونگ اور چین کا شمالی صوبہ ہیبے شامل ہیں۔

یہ سرحد پار مال بردار نیٹ ورک اب ویتنام، لاؤس اور تھائی لینڈ جیسے متعدد آسیان ممالک تک پھیل چکا ہے جو چین اور آسیان کے درمیان اقتصادی و تجارتی روابط کے فروغ کے لئے ایک "تیز رفتار راستہ” فراہم کرتا ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!