43 سالہ احمد ابو عمشہ، غزہ سٹی سے تعلق رکھنے والے موسیقی کے استاد ہیں۔ وہ جنگ کے گزشتہ 19 ماہ کے دوران 12 بار بے گھر کئے جانے کے باوجود عارضی پناہ گاہ سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب بھی انہیں نقل مکانی کرنا پڑتی ہےتو ان کے لئےموسیقی کے آلات اور نوٹس سب سے پہلے سمیٹنے والی چیزیں ہوتی ہیں۔
ابو عمشہ ایڈورڈ سعید نیشنل کنزرویٹری آف میوزک سے وابستہ ہیں اور انہوں نے جنگ سے متاثرہ بچوں کے لئے ایک غیر رسمی پروگرام "غزہ برڈز سنگنگ”(غزہ کے پرندے گا رہے ہیں) شروع کیا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جو جنگ کے دوران اپنے گھر، دوست یا خاندان کے افراد کھو چکے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (عربی): احمد ابو عمشہ، موسیقی کے استاد
"شمالی غزہ کے بیشتر طلبا میرے ساتھ ہی بے گھر ہوئے تھے۔ ہم سب نے ایک ہی جگہ پناہ لی۔ہم اس وقت جنگ کے حالات میں پیدا ہونے والے المیے اور تکلیف کو کم کرنے کے لئےموسیقی کی کلاسز دے رہے ہیں۔ بھوک، درد اور خوف کے باوجود امید باقی ہے۔ہم انہی حالات میں موسیقی سکھا رہے ہیں۔‘‘
یہ پروگرام خان یونس سے اس وقت شروع ہوا جب ابو عمشہ نے دیکھا کہ مقامی بچے موسیقی کا ہنر بھی رکھتے ہیں اور گہرے صدمے سے بھی گزر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے خان یونس کے علاقے مَواسی میں اس کام کا آغاز کیا۔ان بچوں میں بے پناہ صلاحیت تھی اور اتنا ہی وہ دکھی بھی تھے۔ ہم نے بچوں کو ساز دئیے اور اُنہوں نے ہمیں اُمید دی ہے۔
چند روز بعد جب بھی امن و امان کی صورتحال اجازت دیتی ہے یہ بچے اُن کے خیمے میں جمع ہو جاتے ہیں، مشق کرتے ہیں اور اپنی دُھنیں موبائل فون پر ریکارڈ کرتے ہیں۔ جنگ نے بچوں کی دماغی صحت پر خاص طور پر اثر ڈالا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے اداروں نے بھی خبردار کیا ہے کہ غزہ کے کم عمر بچوں میں شدید ذہنی دباؤ، بے خوابی، خوف اور پریشانی کے کیسز عام ہو چکے ہیں۔
ابو عمشہ نے مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ بچے ایسے حالت میں پہنچے کہ وہ بول بھی نہیں سکتے تھے، انہیں نیند نہیں آتی تھی، ڈراؤنے خواب آتے تھے اور اچانک خوف میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ بچے تو آتے ہی چپ ہو جاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے زبان کھو بیٹھے ہوں۔ لیکن جب ہم نے انہیں بانسری یا ڈھول تھمایا تو وہ آہستہ آہستہ کھلنے لگے۔ موسیقی نے انہیں بغیر الفاظ کے بولنا سکھایا ہے۔
ابو عمشہ کے اپنے اہلِ خانہ بھی اس پروگرام میں شریک ہیں۔ ان کے 19 سالہ بیٹے معین، جو خود بھی کئی بار نقل مکانی کا شکار ہو چکے ہیں، ہر وقت اپنی بانسری اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور مشکل راتوں میں اسی کے سہارے خود کو سنبھالتے ہیں۔ ابو عمشہ کی 14 سالہ بھتیجی یارا نے بھی اپنا گھر کھو جانے کے باوجود وائلن بجانا جاری رکھا ہوا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ وائلن بجانے سے وہ اپنے خوف کو بھول جاتی ہے اور خود کو دوبارہ معمول کے مطابق محسوس کرنے لگتی ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (عربی): موئن ابو عمشہ، احمد ابو عمشہ کابیٹا
"میں 11 بار سے زیادہ نقل مکانی کر چکا ہوں۔ہر بار میں نے صرف ایک ہی چیز ساتھ لی اور وہ ہےیہ بانسری۔ یہ میری دوست ہے جو مجھے جنگ بھُلا دیتی ہے۔ جب ہم موسیقی بجانے آتے ہیں تو نہ ہمیں کوئی مناسب جگہ ملتی ہے نہ ہی وقت۔ ہمیں شور و غل سے دور کوئی خالی جگہ بھی نہیں ملتی۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کوئی الگ تھلگ خیمہ یا جگہ کا انتظام کر لیں جہاں تھوڑا سا سکون مل سکے۔ موسیقی کی آواز ہمیں سکون دیتی ہے اور جنگ کو بھلانے میں ہماری مدد کرتی ہے۔”
ساؤنڈ بائٹ 3 (عربی): یارا ابو عمشہ، احمد ابو عمشہ کی بھانجی
"اب ہمیں ایک بار پھر بے گھر ہونا پڑا ہے۔ ہر بار جب ایسا ہوتا ہے تو مجھے خوف محسوس ہوتا ہے اور میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ جب بھی مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے میں وائلن اٹھا لیتی ہوں۔ میں امید کرتی ہوں کہ جنگ ختم ہو جائے گی اور ہم اس درسگاہ میں واپس جا سکیں گے جہاں ہم پہلے موسیقی بجاتے اور تعلیم حاصل کرتے تھے”
ابو عمشہ کے لئے یہ کام محض موسیقی کی تعلیم سے بڑھ کر بن چکا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ کوئی موسیقی کی کلاس نہیں ہے۔ بلکہ ایک پناہ گاہ ہے۔ شفا دینے کی جگہ ہے۔ ان بچوں کے لئے جنہوں نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ یہ موقع ہے کہ وہ خود کو دوبارہ تلاش کریں۔
ابو عمشہ ایک موبائل میوزک اسکول بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو مختلف کیمپوں کے درمیان سفر کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک موبائل میوزک اسکول بنانا چاہتے ہیں، ایک ایسا سکول جو پناہ گزین کیمپوں کے درمیان سفر کرے اور بے گھر ہونے والے بچوں کو موسیقی سکھائے۔ ہمارے پاس جذبہ ہے اور کچھ رضاکارانہ جذبے والے موسیقار بھی۔”
مستقبل کے لئے ابو عمشہ کا ارادہ ہے کہ جنگ کے اختتام پر وہ اپنے تمام شاگردوں کے ساتھ ایک کنسرٹ منعقد کریں۔ ان کے بقول یہ کنسرٹ اس بات کا اعلان ہو گا کہ غزہ اب بھی زندہ ہے۔ جب ان سے اس قدر بڑی امیدوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ
"جنگ کے نعرے آج بلند ہیں لیکن طویل مدت میں موسیقی کی آواز اُن سے بھی بلند ہو گی۔ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ہم گیت گانا چاہتے ہیں، ساز بجانا چاہتے ہیں اور امن سے جینا چاہتے ہیں۔ ہمارے نغموں کو خاموش نہ کریں۔”
غزہ، فلسطین سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوائنٹس آن سکرین:
1۔ غزہ کے 43 سالہ احمد ابو عمشہ جنگ کے دوران 12 بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
2۔ وہ موسیقی کے اُستاد ہیں، اس لئے وہ نقل مکانی کے دوران موسیقی کے آلات ساتھ رکھتے ہیں۔
3۔ اُنہوں نے بے گھر بچوں کے لئےموسیقی پروگرام”غزہ کے پرندے گا رہے ہیں” شروع کیا۔
4۔ پروگرام کا آغاز خان یونس میں ان بچوں سے کیا گیا جو باصلاحیت بھی تھے اور غمگین بھی۔
5۔ ان کے بقول موسیقی ان بچوں کے لئے ذہنی سکون اور اظہار کا ذریعہ بن گئی ہے۔
6۔ ابو عمشہ کے مطابق کچھ بچے جو بالکل خاموش تھے ساز بجانے سے بولنے لگے۔
7۔ اُن کا بیٹا معین اور بھانجی یارا بھی موسیقی کو جنگ اور خوف سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
8۔ ابوعمشہ کی خواہش ہے کہ وہ ایک موبائل موسیقی اسکول قائم کریں جو پناہ گزین کیمپوں میں جائے۔
9۔ وہ جنگ کے بعد تمام بچوں کے ساتھ ایک کنسرٹ منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
10۔ ابو عمشہ کا کہنا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم گانا، بجانا اور امن سے جینا چاہتے ہیں۔

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link