اسلام آباد: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ملک میں بحران کا ذمہ دار عدلیہ کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ادارہ بار بار پارلیمنٹ میں مداخلت کررہا ہے، عدلیہ کی تاریخ پورے ملک کے سامنے ہے، ارشد ندیم کی طرح اس نے بھی ورلڈ ریکارڈز توڑے ہیں،ڈیم بناتے،سموسے،ٹماٹر کی قیمتیں طے کرتے پتہ نہیں آئین کہاں چلا جاتا ہے؟، مگر انصاف کی بات پر آئین و قانون لاگو کرنا رکاوٹ بن جاتا ہے، عدالتی فیصلے نے مردہ سیاسی جماعت کو متحرک کردیا، بن مانگے سیٹیں ایسے دی گئیں، جیسے ٹافی ہو،آج سے قبل ایسی سیاسی تقسیم تاریخ میں نہیں دیکھی، ہمیں سیاسی لڑائیاں سیاست کے دائرہ میں رہ کر کرنی ہوں گی، انشاء اللہ اگلے اولمپکس میں چاروں صوبوں سے ارشد ندیم نکال کر لائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے پر ارشد ندیم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ان کی جیت کو سراہتی اور فخر کرتی ہے، ارشد ندیم نے اپنی محنت سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، یہاس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی نوجوان کو موقع دیا جاتا ہے تو وہ فتحیاب ہوکر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایتھلیٹس کی اسپانسر شپ وغیر ہ کے حوالے سے ہماری رائے متفق ہونی چاہئے، ہمیں پاکستان بھر میں صلاحیت رکھنے والے بچوں کا ساتھ دینا چاہئے، لیاری کا ایک ایک بچہ فیفا کا ورلڈ کپ جیت سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ طے کرنا چاہئے کہ اگلے اولمپکس میں پاکستان کا ہر ایتھلیٹ گولڈ میڈل جیت کر آئے، تمام صوبائی وزراء کھیل کیساتھ بیٹھ کر انڈاؤمنٹ فنڈ قائم کیا جائے اور اس فنڈ میں وفاق اور صوبے کچھ فنڈز رکھیں تاکہ ہم ان بچوں کو تلاش کر سکیں اور ان کو سپورٹ کر سکیں اور اگلے اولمپکس میں ہر صوبے سے ہم ارشد ندیم کو لاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک دو مسائل پر بات کرنا ضروری ہے، پاکستانی نوجوانوں اور لیبر میں بہت صلاحیت ہے، ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر اس ملک کی تاریخ کچھ اور ہے، اسلام آباد کو اس لئے دارالحکومت بنایا گیا کہ یہاں بیٹھ کے ملک کے عوام کے مسائل حل کئے جانے تھے،شہر میں بڑے بڑے ادارے، عمارتیں، بیوروکریسی، سیاستدان موجود ہیں مگر جس کام کیلئے ہم یہاں آتے ہیں وہ پورا نہیں کرتے، ہم سازشیں شروع کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کل جیسے ملک چل رہا ہے، جیسی تقسیم سیاست میں موجود ہے وہ تاریخ میں نہیں ملتی،اسی وجہ سے ہم معاشی بحران سے گزرنے والے عوام کی مدد نہیں کر پا رہے، امن وامان کی صورتحال ملک کے چاروں کونے میں مشکل ہوتی جارہی ہے مگر ہم ایوان میں متفق رائے بھی نہیں بنا سکتے، دن رات ہم ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، ہم ایک دوسرے کو چور غدار کہہ رہے ہیں، ہمیں کوئی طریقہ نکالنا پڑے گا کہ لڑائیاں لڑیں مگر سیاست کے دائرے میں رہ کر۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی کارکن بنگلہ دیش کے حالات غور سے دیکھ رہے ہیں، احتجاج وہاں فوج میں شہید ہونیوالوں کے کوٹے کے اوپر شروع ہوا، اس کوٹے کو 2018 میں حسینہ واجد نے خود ختم کیا اور ان کی عدالت نے اسے بحال کیا اور احتجاج شروع ہوگیااور وہ رک نہ سکا،سب نے دیکھا کہ کیسے حسینہ واجد کو اس وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑا، اس کو دیکھ کر سب کو سوچنا چاہگے کہ ہمیں عوامی مسائل کو ترجیح دینی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے جو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ کچھ آپ کے ہاتھ میں ہیں کچھ آپ کے ہاتھ میں نہیں، اس وقت جو بحران ہے،ادارے کے درمیان ایک فاصلہ نظر آرہا ہے یہ اس لئے ہے کہ ایک ادارہ اس ادارے میں بار بار مداخلت کرتا ہے، عدلیہ کی تاریخ تو پورے ملک کے سامنے ہے، ارشد ندیم کی طرح ہماری عدلیہ نے بھی ورلڈ ریکارڈز توڑے ہیں، عدلیہ اتنی قابل ہے کہ وہ انصاف بھی دلواتی ہے،ڈیم بھی بناتی ہے اور مہنگائی کا مقابلہ بھی کرتی ہے، وہ تو سموسے اور ٹماٹر کی قیمت بھی طے کرسکتی ہے،ہماری عدلیہ اتنی زبردست ہے کہ پوری دنیا میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا،ملک میں اتنے بڑے سانحات ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو شہید ہوئی، شہریوں کے کیسز آج تک انصاف کے منتظر ہیں، ہمیں 3 دہائی تک انصاف کا انتظار کرنا پڑا بالآخر عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس حد تک انصاف دیا کہ ہاں ان کو صحیح انصاف نہیں دیا گیا اور ساتھ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہم تاریخ کو درست کرنے کیلئے کوئی واضح عمل نہیں اٹھاسکتے۔انہوں نے کہا کہ جب ڈیم بنانے کی بات آتی ہے، ٹماٹر اور سموسے کی قیمت طے کرنے کی بات آتی ہے تو آئین و قانون پتا نہیں کہاں چلا جاتا ہے؟ مگر جب انصاف کی بات آتی ہے، تو آئین و قانون کو لاگو کرنا ہمارے ملک میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اسٹارم ان ٹی کپ کو پورا آئینی بحران بنایا جارہا ہے اور اس بحران کا ذمہ دار ایوان میں بیٹھا کوئی شخص نہیں بلکہ عدلیہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ قائد حزب اختلاف سے کوئی پوچھے کہ ان کے بلے کا نشان کیا میں نے چھینا تھا؟، کیا میں نے کہا کہ آپ کے الیکشنز غلط ہیں؟، عدالت نے کہا انہوں نے الیکشن میں دھاندلی جس وجہ سے نہ ان کو نشان ملے گا نہ یہ جماعت رہیں گے، اس فیصلے نے مری ہوئی سیاسی جماعت کو جس کی الیکشن کمپین کا نہ سر تھا نہ پیر کو اتنا فائدہ دیا کہ پوری جماعت متحرک ہوگئی، اور الیکشن کے آخری وقت میں اس فیصلے کے سیاسی اثرات بھی تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب کہا جارہا ہے کہ اصل میں ہم نے یہ کہا ہی نہیں، اصل میں یہ ہے کہ جو انہوں نے مانگا ہی نہیں، جس کی آئین و قانون میں گنجائش نہیں انہیں وہ دیا گیا، ان کو ایسے ہی سیٹیں بانٹ دیں جیسے ٹافی دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک ملک آئین و قانون کے مطابق نہیں چلے گا، جب تک ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کریں گے تب تک جس مقصد کیلئے ہم یہاں بیٹھے ہیں پر عوام کی امیدوں کے مطابق نہیں چل سکیں گے، ہم الیکشن کے دوران سیاست کی گرما گرمی ایسے پوائنٹ تک لے کر آجاتے ہیں کہ اب نفرت کی سیاست نظر آرہی ہے، اگر ہم بات کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم میں صلاحیت ہے کہ ہم متفق رائے بنا کر سیاست کو چلا سکیں گے۔
