چین کے شمالی اندرونی منگولیا خودمختار علاقے کے شہر باؤتو میں نایاب ارضیاتی نمونوں کے عجائب گھر میں نایاب کچی زمین دھات کا ٹکڑا دیکھا جاسکتا ہے-(شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا) چین کی جانب سے حال ہی میں بعض نایاب ارضیاتی اشیاء کی برآمد پر کنٹرول کے نئے قواعد و ضوابط کا اعلان ملکی صنعتی پائیدار ترقی کی ضروریات کے تحت کیا گیا ہے۔
یہ اقدام بین الاقوامی انتظامی معیارات کے مطابق ہے اور بڑی طاقت کے طور پر چین کی ذمہ داریوں کی عکاسی کرتا ہے اور بعض لوگوں کے دعویٰ کے مطابق یہ کوئی حکمت عملی پر مبنی ردعمل نہیں ہے۔
یہ قدم چین کی اس اہم عالمی حیثیت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اہم معدنیات کا کلیدی سپلائر ہے اور مشترکہ عالمی ترقی کے فروغ کے لئے پرعزم ہے۔
چین کی نایاب ارضیاتی اشیاء کی برآمد پر پابندی مخصوص ممالک کو ہدف بنانے والی تجارتی رکاوٹیں نہیں بلکہ بین الاقوامی عدم پھیلاؤ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے ایک ذمہ دارانہ اقدام ہے۔ غیر امتیازی اصول کے تحت نافذ کی گئی یہ پابندیاں چین کی عالمی امن اور علاقائی استحکام برقرار رکھنے کی وابستگی کو ظاہر کرتی ہیں۔
نایاب ارضیاتی عناصر نہ صرف نئی توانائی والی گاڑیوں، صارف الیکٹرانکس اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائنز کی تیاری کے لئے اہم ہیں بلکہ لڑاکا طیاروں اور جوہری تنصیبات جیسے جدید فوجی سازوسامان کے لئے بھی ناگزیر ہیں۔ ایسے تزویراتی وسائل کا بین الاقوامی امن و سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال روکنا تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
درحقیقت دوہرے استعمال کے حامل تزویراتی مواد پر برآمدی پابندیاں عالمی طور پر تسلیم شدہ ہیں اور قومی سلامتی کے تحفظ اور بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے خودمختار ریاستوں کا جائز حق ہے۔
چین کے نئے نایاب ارضیاتی عناصر پر پابندیوں کے اقدامات ضروری صنعتی اصلاحات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ماضی میں بے تحاشا اور غیر منظم ترقی نے وسائل کی قدر میں کمی اور ماحولیاتی نقصان کو بڑھایا۔ یہ غیر پائیدار ماڈل ملک کے قدرتی وسائل کو ختم کرنے کے ساتھ عالمی صنعتی ترسیلی ذرائع کی طویل مدتی استحکام کے لئے بھی خطرات پیدا کرتا تھا۔
