زیمبیا کی یونیورسٹی آف زیمبیا میں قائم کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں چینی زبان میں مہارت کے مقابلے کا فائنل مرحلہ جمعہ کے روز منعقد ہوا ہے۔
چینی زبان میں مہارت کے یہ دو مختلف مقابلے تھے۔ 24ویں "چائنیز برج” مقابلے میں زیمبیا کی جامعات کے 10 طلبہ شریک ہوئے جبکہ 18ویں "چائنیز برج” مقابلے میں ملک کے مختلف سیکنڈری اسکولوں کے 9 طلبہ نے شرکت کی ہے۔
طلبہ نے شعر و شاعری اور پاپ گانوں کی پرفارمنس کے ذریعے چینی زبان میں اپنی مہارت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چین کے سفارت خانے کے منسٹر قونصلر وانگ شینگ کہا کہ ’چائنیز برج‘ محض زبان اور ثقافت کے اظہار کا ایک پلیٹ فارم ہی نہیں بلکہ چین اور دنیا کے درمیان دوستی، ثقافتی تبادلے اور تہذیبی ہم آہنگی کا پل بھی ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): وانگ شینگ، منسٹر قونصلر، چینی سفارت خانہ، زیمبیا
"یہ صرف لسانی مہارت، ثقافتی آگہی اور نوجوانوں کے جوش و جذبے کا مقابلہ نہیں بلکہ چین اور دنیا کے درمیان دوستی کا ایک پل بھی ہے۔ اس سے مختلف اقوام اور تہذیبوں میں باہمی افہام و تفہیم اور ایک دوسرے سے سیکھنےکے عمل کو فروغ ملتاہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے زیمبیاکے زیادہ سے زیادہ نوجوان چینی زبان کو اپناتے ہوئےاس میں مہارت حاصل کریں تاکہ ان کے اندر چین کے ایک حقیقی ، کثیر جہتی اور جامع تصور کو بہتر طور پرسمجھنے کا جذبہ پیدا ہو۔”
یونیورسٹی آف زیمبیا کے قائم مقام وائس چانسلر فیلکس ماسئے نے چینی زبان کو ایک اہم پل قرار دیا جو اقوام اور ثقافتوں کو جوڑتا ہے، ٹیکنالوجی اور کاروبار تک رسائی کو آسان بناتا ہے اور عوامی سطح پر رابطوں کو فروغ دیتا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): فیلکس ماسئے، قائم مقام وائس چانسلر، یونیورسٹی آف زیمبیا
"اس موقع پر میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ نے چینی زبان اور دیگر شعبوں میں زیمبیا یونیورسٹی کے طلبا کے لئے وظائف جاری کئے۔ ہماری ہمیشہ کی یہ دوستی یوں ہی قائم و دائم رہے۔”
شمالی زیمبیا کے کاساما گرلز سیکنڈری اسکول کی طالبہ مبانگا موسیبا نے اسکول کی سطح پر ہونے والے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ طالبہ نے اپنی جیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقابلہ بہت سخت تھا لیکن اس کے باوجود غیر متوقع کامیابی اس کے لئے ایک خوش کن تجربہ ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): مبانگا موسیبا، طالبہ، کاساما گرلز سیکنڈری اسکول
"میں بہت خوش اور پُرجوش ہوں۔ مقابلہ جیتنا میرے لئے ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ میں نے ابھی حال ہی میں چینی زبان سیکھنا شروع کی ہے۔میں نے پوری توجہ سے تیاری کی کیونکہ میرا ایک ہی مقصد تھا کہ جیتنا ہے اور چینی زبان میں اپنی مہارت کو مزید بہتر بناناہے۔میں چاہتی ہوں کہ مزید سیکھوں تاکہ اپنے دوستوں کی بھی مدد کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم پوری توجہ کے ساتھ چینی زبان سیکھ لیں تو اپنے ملک کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔”
لوساکا سےشِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link