اتوار, جولائی 27, 2025
انٹرنیشنلغزہ کے بزرگ طویل جنگ کے دوران بھوک، خطرے اور نقل مکانی...

غزہ کے بزرگ طویل جنگ کے دوران بھوک، خطرے اور نقل مکانی سے نبرد آزما

غزہ شہر میں بے گھر افراد کے لئے ایک سکول میں قائم پناہ گاہ پراسرائیلی فضائی حملے کے بعد فلسطینی خواتین نوحہ کناں ہیں-(شِنہوا)

غزہ(شِنہوا)ابراہیم ابو ناجی غزہ شہر کے ایک پرہجوم کلاس روم، جسے پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، میں ایک پتلے گتے پر روزانہ سو کر اٹھتا ہے، ان کا جسم سخت فرش پر لیٹنے سے درد کرتا ہے اور ان کا کمزور جسم 9 بچوں اور پوتے پوتیوں، جو ان کے ساتھ رہتے ہیں، کی دیکھ بھال کے لئے تگ ودو میں رہتا ہے۔

ہر اسرائیلی فضائی حملے سے چھت لرز اٹھتی ہے۔ 65 سالہ شخص نے اس خستہ حال کمرے کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے پوچھا، ”کیا آج ہم زندہ بچ پائیں گے؟”

متعدد بار گھر چھوڑنے پر مجبور ابراہیم نے وسطی غزہ میں شجاعیہ کے علاقے سے نقل مکانی کی اور پھر رفح پہنچا اور آخر کار غزہ شہر آگیا۔

انہوں نے شِنہوا کو بتایا کہ یہ ایسی تکلیف ہے جس کا میں نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا حتیٰ کہ پچھلی جنگوں میں بھی نہیں کیا۔ اب کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی۔ ہر بار جب ہمیں کچھ سکون ملتا ہے تو انخلا کا حکم آجاتا ہے، جیسے ٹوٹے ہوئے پتے ہوا میں بکھر جاتے ہیں اسی طرح  ہم اپنے پیچھے تقریباً سب کچھ چھوڑ جاتے ہیں۔

وہ زرا رکا، اس کی آواز تھکن سے بوجھل تھی۔ اس نے کہا کہ میں بوڑھا ہوں، میں زیادہ دور نہیں چل سکتا، فرش پر سونے سے میری پیٹھ میں درد ہوتا ہے۔ نہ کھانے کو کچھ ہے، نہ دوائیں ہیں اور نہ ہی صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام ہے۔ یہ زندگی نہیں ہے بلکہ یہ آہستہ آہستہ مرنے کے مترادف ہے۔

جیسے جیسے غزہ میں تنازع اپنے 19 ویں ماہ میں داخل ہو رہا ہے۔ عمررسیدہ رہائشی شدید بھوک، بار بار نقل مکانی، طبی سہولیات کی کمی اور اپنی سلامتی کے مسلسل خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، جسے بہت سے لوگ اپنی زندگی کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیتے ہیں۔

وسطی غزہ کے دیر البلاح شہر میں اپنے تباہ شدہ گھر میں 84 سالہ خاتون دعلال الناجی ایک پتلی چادر میں لپٹی بیٹھی ہے۔ اپنی حالیہ جبری نقل مکانی کے بارے میں بتاتے ہوئے اس کی آواز کانپ رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم بوڑھے ہیں۔ جب بم گرتے ہیں تو ہم بھاگ نہیں سکتے۔ ہم کھانے کی لائنوں میں گھنٹوں کھڑے نہیں رہ سکتے۔

اس نے بتایا کہ حال ہی میں ایک راکٹ ہمارے گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر گرا۔ مجھے ایسا لگا کہ میرا دل رک جائے گا۔ میں اس وقت تک نہیں اٹھ سکتی تھی جب تک کہ میرا بیٹا مجھے اٹھا نہ لے۔

بزرگ خاتون نے آبدیدہ آنکھوں سے مزید کہا کہ اب میں صرف ایک رات کا امن چاہتی ہوں، جس میں کوئی جہاز نہ گزرے، چھت گرنے کا کوئی خوف نہ ہو۔ میں سکون سے مرنا چاہتی ہوں۔

ایک اور بے گھر 72 سالہ خاتون نعیمہ الناجی نے خوراک اور ادویات کی تلاش کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے شِنہوا کو بتایا کہ ہم روٹی کے ایک چھوٹے سے تھیلے اور پھلیوں کے ڈبے کا گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ کبھی تو مجھے کچھ بھی نہیں ملتا۔ میرا بلڈ پریشر بہت زیادہ ہے، لیکن مجھے دوا نہیں مل رہی۔ میں لیٹ جاتی ہوں اور وقت گزارنے کے لئے قرآن کی تلاوت کرتی ہوں۔

غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس سے تعلق رکھنے والے 75 سالہ محمد المجائیدہ نے 1967 کی جنگ کے دوران اپنی پہلی نقل مکانی کا ذکر کیا۔

 انہوں نے کہا کہ تب پڑوسیوں نے ہمارے لئے اپنے دروازے کھول دیئے تھے۔ اب ہر کوئی تکلیف میں ہے اور کوئی بھی مدد نہیں کرسکتا۔

اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک محمد المجائیدہ 10 سے زیادہ بار نقل مکانی کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ دو دن تک کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ میں بوڑھا اور کمزور ہوں،  کوئی دوا نہیں ہے، کوئی ڈاکٹر نہیں ہے، کوئی ایمبولینس نہیں ہے۔

انہوں نے درد بھری آواز میں کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ زندگی کا اختتام ہے، کوئی ہمارے بارے میں نہیں پوچھتا، کوئی حکومت ہے نہ  کوئی ادارہ۔ ہمیں بھلا دیا گیا ہے۔

غزہ شہر سے تعلق رکھنے والے ایک خیراتی رضاکار محمد ابو جمیہ کا کہنا ہے کہ ہر روز بے شمار عمر رسیدہ افراد بھوک کے باعث ہمارے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے نفسیاتی تناؤ اور نظراندازی کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ ہم کھانا اور چادر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وسائل کم ہیں اور طلب بہت زیادہ ہے۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!