اتوار, جولائی 27, 2025
انٹرنیشنلغزہ کے چند باقی ماندہ ہسپتالوں میں زچگی کی دیکھ بھال متاثر...

غزہ کے چند باقی ماندہ ہسپتالوں میں زچگی کی دیکھ بھال متاثر ہورہی ہے، اقوام متحدہ

غزہ شہر میں بچے خوراک کی تقسیم کے مرکز سے کھانا حاصل کرتے ہوئے-(شِنہوا)

اقوام متحدہ(شِنہوا)اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے اداروں نے بتایا کہ اس کے شراکت داروں کے مطابق غزہ کی پٹی میں صرف 5 ہسپتال ہی زچگی کی دیکھ بھال فراہم کر رہے ہیں جبکہ غزہ میں امدادی سامان کی ناکہ بندی کو 70 دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) نے کہا ہے کہ دائیوں کے پاس ضروری سامان اور آلات کی شدید قلت ہے۔ شراکت داروں کے مطابق تقریباً 17 ہزار حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں اور انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔

اوچا کے مطابق 70 دن سے زائد عرصے سے نہ تو امداد اور نہ ہی تجارتی سامان غزہ میں داخل ہو رہا ہے۔ اس مکمل ناکہ بندی نے آبادی پر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ غزہ کے 36 میں سے صرف ایک تہائی ہسپتال اور 30 فیصد بنیادی صحت کے مراکز کسی حد تک کام کر رہے ہیں جبکہ مسلسل حملوں، ضروری طبی سامان، ایندھن اور عملے کی کمی کے باعث صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

ہسپتالوں پر حملے مسلسل جاری ہیں۔ خان یونس میں اسرائیلی فورسز نے ناصر میڈیکل کمپلیکس کے سرجیکل ڈیپارٹمنٹ کو نشانہ بنایا جہاں جانی نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ یہ ہسپتال غزہ کے صرف ان 8 سرکاری ہسپتالوں میں شامل ہے جو جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔

خان یونس پر حملے کے بعد اقوام متحدہ کی نائب رابطہ کار برائے انسانی ہمدردی سوزانا تکالیک اور اوچا کی ٹیم نے ہسپتال کا دورہ کیا۔ انہوں نے عملے اور بین الاقوامی ڈاکٹروں سے ملاقات کی اور کہا کہ وہ اس ہسپتال پر ایک اور حملے سے شدید صدمے میں ہیں جو جنگ کے آغاز سے اب تک چوتھا حملہ ہے۔

تکالیک نے کہا کہ ان حملوں کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا اور انہیں فوری بند کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ صحت کی سہولیات اور ان میں کام کرنے والے افراد کو ہر حال میں تحفظ فراہم کیا جانا لازم ہے۔

اوچا نے بتایا کہ مسلسل جاری مخاصمت کے باوجود اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار خان یونس میں بچوں کو نہ پھٹنے والے بارودی مواد سے بچنے کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!