غزہ شہر کے ایک عارضی ورکشاپ میں فلسطینی شہری پلاسٹک کے فضلے سے ایندھن بنانے کا کام کر رہے ہیں-(شِنہوا)
غزہ(شِنہوا)غزہ شہر میں کھنڈرات کے درمیان ایک عارضی ورکشاپ میں فلسطینیوں کا ایک گروپ پلاسٹک کی مختلف اشیاء کو توڑنے اور انہیں دھات کے بڑے کنٹینرز میں پگھلانے میں مصروف ہے۔ وہ اسرائیل کی ناکہ بندی سے پیدا ہونے والی قلت سے نمٹنے کے لئے فضلے کو ایندھن میں تبدیل کر رہے ہیں۔
ورکشاپ کے مالک 45 سالہ سعد الدین ابو عجوہ نے شِنہوا کو بتایا کہ ہم ملبے سے پلاسٹک جمع کرتے ہیں اور اسے پگھلاتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس عمل سے موٹی چکنائی پیدا ہوتی ہے جس سے ہم پٹرول اور پھر ڈیزل نکالنے کے لئے دوبارہ گرم کرتے ہیں۔
اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی مدد سے کام کرتے ہوئے ابو عجوہ کی ورکشاپ روزانہ تقریباً 500 لیٹر ڈیزل تیار کرتی ہے۔
یہ ایندھن براہ راست ان رہائشیوں کو فروخت کیا جاتا ہے جو کنٹینرز لے کر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تاکہ اسے رکشہ، جنریٹرز اور پانی کی موٹریں جیسے ضروری آلات چلانے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
ابو عجوہ نے کہاکہ مقصد منافع نہیں بلکہ بقا ہے۔ ہسپتالوں، ایمبولینسز، پانی کی صفائی والے پلانٹس اور ہر چیز کے لئے ایندھن بہت ضروری ہے۔ صحت اور حفاظت کے خطرات کے باوجود ہمارے پاس اسے شروع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
غزہ کے شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال نے شِنہوا کو بتایا کہ 2 مارچ کے بعد سے ایندھن کی ترسیل مکمل طور پر بند کردی گئی ہے جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی اور اب تباہ کن ہے۔
اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق جنگ کے آغاز کے بعد سے پٹی میں داخل ہونے والا ایندھن انتہائی کم ہے جوزیادہ تر ہسپتالوں کو بھیجا گیا ہے۔
ایندھن بنانے کا یہ سارا عمل نتائج کے بغیرنہیں ہے، ورکشاپ کے اوپر کالا دھواں چھایا ہوا ہے اور کارکن دستانے یا ماسک کے بغیر کام کرتے ہیں اور انہیں نقصان دہ دھوئیں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ابو عجوہ کی ورکشاپ کے ایک کارکن محمد العربید نے شِنہوا کو بتایا کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ کچھ کو کھانسی کے دوران خون بھی آرہا ہے۔ ہم جل گئے ہیں اور دم گھٹ رہاہے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
ابو عجوہ نے کہا کہ ہم تباہ شدہ عمارتوں اور گلیوں میں پلاسٹک تلاش کرتے ہیں لیکن یہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو ہمیں یہ بند کرنا پڑے گا۔
ابوعجوہ نے بین الاقوامی برادری سے حمایت کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایندھن، امداد اور کھلی گزرگاہوں کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم کھنڈرات کے درمیان زندگی کی تلاش جاری رکھیں گے، چاہے اس کی قیمت کتنی ہی کیوں نہ ہو۔
