اتوار, جولائی 27, 2025
تازہ ترینٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں سے عالمی نظام متاثر ہونے کا خدشہ ہے:...

ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں سے عالمی نظام متاثر ہونے کا خدشہ ہے: جرمن ماہرِ معیشت

جرمن ماہر معاشیات اور "ہِڈن چیمپئنز” تھیوری کے بانی ہرمن سائمن نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی خسارے کم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر محصولات عائد کرنے کی کوشش غلط فہمی پر مبنی ہے اور یہ حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ امریکہ خدمات کے شعبے میں خاطر خواہ سرپلس رکھتا ہے۔

سائمن نے شِنہوا سے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ امریکی تحفظ پسند اقدامات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں اور یہ عالمی سپلائی چین کو طویل المدتی ساختی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ رویہ جاری رہا تو عالمی تجارتی نظام کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

ساؤنڈ بائٹ (انگریزی): ہرمن سائمن، جرمن ماہر معیشت

’’جب ہم برآمدات کی بات کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ صرف اشیاء کی برآمدات کو مراد لیتے ہیں، یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ’اشیاء کی برآمدات‘ ہیں، کیونکہ خدمات کی برآمدات بھی ہوتی ہیں۔ امریکہ خدمات کی برآمدات میں سب سے آگے ہے اور اسے اس شعبے میں بہت بڑا سرپلس حاصل ہے، خسارہ نہیں۔

زیادہ محصولات کے نتائج اکثر ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔

سب سے بدترین چیز غیر یقینی صورتحال ہے۔ اگر لوگ یہ نہ جان سکیں کہ اگلے چند مہینوں یا برسوں میں کیا ہوگا، تو وہ کوئی فیصلہ نہیں کرتے، وہ سرمایہ کاری نہیں کرتے اور یہی چیز عالمی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

قلیل المدتی محصولات کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عالمی ویلیو چین کو تباہ کر دیتے ہیں۔ جرمن کمپنیاں جیسے بی ایم ڈبلیو امریکہ میں گاڑیاں اسمبل کرتی ہیں اور ان کے بہت سے پرزے امریکہ بھیجے جاتے ہیں۔ ایپل کی مثال لیں، جو چین میں آئی فونز تیار کرتا ہے، ان کے کئی پرزے دوسرے ممالک سے آتے ہیں اور پھر آئی فونز کو دوبارہ برآمد کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ نے انہیں پہلے ہی استثنا دے دیا کیونکہ یہ ایپل کے آئی فون کاروبار کو برباد کر دیتا۔ اسی لیے تقریباً تمام ماہرین معیشت اس بات پر متفق ہیں کہ زیادہ محصولات اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہ نہ صرف عالمی معیشت پر بلکہ خود امریکہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے کہ اسی نوعیت کی محصولات نے عالمی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1930 میں نافذ کیا گیا اسموٹ-ہاؤلی ٹیرف 1929 سے 1934 کے درمیان عالمی تجارت میں 66 فیصد کمی کا باعث بنا۔ یہ عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ مجھے امید ہے کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا۔‘‘

برلن سے شِنہوا نیوز ایجنسی کے نمائندوں کی رپورٹ

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!