امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر فوسٹر میں میں گاہک سپر مارکیٹ پر سامان کا انتخاب کررہے ہیں-(شِنہوا)
واشنگٹن(شِنہوا)امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) میں رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں سالانہ بنیاد پر 0.3 فیصد کمی ہوئی جب کہ نئی ٹیرف پالیسیوں کے باعث غیر یقینی صورتحال میں اضافہ اور اعتماد میں کمی دیکھی گئی۔
امریکی بیورو آف اکنامک انالیسز(بی ای اے) کے مطابق تازہ ترین اعدادو شمار 2024 کی چوتھی سہ ماہی میں 2.4 فیصد کی شرح نمو کے بعد سامنے آئے ہیں۔
پیشگی تخمینے کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلی سہ ماہی میں حقیقی جی ڈی پی میں یہ کمی بنیادی طور پر درآمدات میں اضافے کو ظاہر کرتی ہے جو جی ڈی پی کے حساب میں تفریق اور سرکاری اخراجات میں کمی ہے۔ ان اثرات کو سرمایہ کاری، صارفین کے اخراجات اور برآمدات میں اضافے نے جزوی طور پر متوازن کیا۔
رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ مجموعی برآمدات نے جی ڈی پی میں4.83 فیصد پوائنٹس کی کمی کی جو ریکارڈ پر سب سے زیادہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنیاں آئندہ ممکنہ بلند ٹیرف کے خدشے کے پیش نظر ذخیرہ اندوزی کر رہی ہیں۔
جی ڈی پی کے تقریباً 2 تہائی حصے پر مشتمل صارفین کے اخراجات میں پہلی سہ ماہی میں 1.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جو گزشتہ سہ ماہی میں 4.0 فیصد کے مقابلے میں کہیں سست رفتار ہے۔ صارفین کے اخراجات نے پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 1.21 پوائنٹس کا اضافہ کیا۔
وفاقی حکومت کے اخراجات میں 5.1 فیصد کمی ہوئی جس سے پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 0.33 پوائنٹس کی کمی ہوئی۔
ویلز فارگو کے ماہرینِ معیشت نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ امریکی معیشت اس وقت گزشتہ ماہ سے زیادہ کساد بازاری کے خطرے سے دوچار ہے تاہم پہلی سہ ماہی میں 0.3 فیصد کی یہ گراوٹ کساد بازاری کی ابتدا نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دراصل تجارتی پالیسی میں اچانک تبدیلی کی عکاسی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ نصف صدی کے اعدادوشمار کے جائزے کے مطابق مجموعی برآمدات کا جی ڈی پی پر سب سے زیادہ منفی اثر پڑا۔
