امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو اقوام متحدہ کے کثیرالجہتی نظام سے بہت کم ہم آہنگ ہے ۔ امریکہ کی یک طرفہ اقتصادی پالیسیوں سے عالمی امن اور ترقی کا عمل کمزور ہو رہا ہے۔ یہ بات امریکہ کے ایک معروف معاشی ماہر نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایریا فارمولہ اجلاس میں کہی ہے۔
روم سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کولمبیا یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر جیفری ساکس نے اجلاس کے عنوان ’’کثیرالجہتی کی حمایت اور ترقی‘‘ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ساکس نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس وقت ایک ایسی کثیر قطبی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر طرف طاقت پھیل چکی ہے۔ عالمی نظام کے استحصال کا شکار ہونے کے باعث اس وقت ہم مکمل طور پر کثیرالجہتی دنیا میں بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے ’’اقوام متحدہ کی کثیرالجہتی کے حامی ممالک کا اشاریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی گزشتہ برس کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سب سے آخری نمبر پر ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): جیفری ساکس، ڈائریکٹر، سینٹر فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ، کولمبیا یونیورسٹی
’’ اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں امریکہ سب سے آخری نمبر پر ہے یعنی اس کا 193واں نمبر ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کے کثیرالجہتی نظام سے سب سے کم ہم آہنگ ملک ہے۔‘‘
ساکس نے اس درجہ بندی کو امریکہ کی جانب سے دنیا کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزیوں، یک طرفہ پابندیوں کے نفاذ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اکثریتی موقف کے خلاف ووٹ دینے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ساکس نے امریکہ کی طرف سے غلط معاشی جواز کے بہانے ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایاہے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): جیفری ساکس، ڈائریکٹر، سینٹر فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ، کولمبیا یونیورسٹی
’’ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ کو جس تجارتی خسارے کا سامنا ہے وہ دوسرے ممالک کی امریکہ کے ساتھ بدسلوکی کا نتیجہ ہے۔لیکن یک طرفہ ٹیرف عائد کرنے کا یہ کوئی معقول جواز نہیں۔ یہ ٹیرف بالکل بھی اس بات سے متعلق نہیں ہیں کہ دنیا کے باقی ممالک نے امریکہ کو کسی طرح دھوکہ دیا ہو۔میرے خیال میں امریکہ نہ صرف کثیرالجہتی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہواہے بلکہ اس نے خود امریکی آئین کو بھی توڑا ہے ۔کیونکہ آئین کے آرٹیکل 1 کے سیکشن 8 میں ٹیرف فیسوں کا اختیار امریکی صدر کو نہیں بلکہ امریکی کانگریس کو دیا گیا ہے۔‘‘
ساکس نے امریکہ کے توسیع پسندانہ رویے کو ’’اقتصادی بدمعاشی‘‘ قرار دیا جس میں نہ صرف ٹیرف فیس بلکہ دیگر یک طرفہ جابرانہ اقدامات بھی شامل ہیں۔ ان اقدامات میں افراد اور مالیاتی اداروں پر پابندیاں اور ریاستی اثاثوں کی ضبطی شامل ہے۔ اس سے دنیا بھر میں کمزور آبادیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): جیفری ساکس، ڈائریکٹر، سینٹر فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ، کولمبیا یونیورسٹی
’’ ان اقدامات سے دنیا بھر کے لوگوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ صحت کی بنیادی سہولیات، خوراک اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات تک لوگوں کی رسائی نہیں رہتی۔ یہ اقدامات اموات کی شرح کو بڑھا رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ نہ صرف قانونی طور پر درست نہیں بلکہ انتہائی غریب طبقے کی صحت اور فلاح و بہبود کے لئے بھی خاص طور پر بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔‘‘
ساکس نے امریکہ کی کرنسی کو خارجہ پالیسی کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے پر بھی تنقید کی ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 4 (انگریزی): جیفری ساکس، ڈائریکٹر، سینٹر فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ، کولمبیا یونیورسٹی
’’ اس کے علاوہ، امریکہ دوسرے ممالک کے اثاثوں کو ضبط کرتا ہے، وہ روسی فیڈریشن، وینیزویلا، ایران، افغانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ ایسا کر چکا ہے۔ یہ بس ان ممالک کے ڈالرز کو منجمد کر دیتا ہے جن کے ساتھ خارجہ پالیسی پر اسے اختلاف ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے سال 2019 سے عالمی تجارتی تنظیم کی اپیلیٹ باڈی میں تعیناتیاں روکنے پر بھی امریکہ کی مذمت کی ہے۔ ساکس نے کہا کہ امریکہ جان بوجھ کر عہدوں کی تقرری کو روک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنازعات کا حل ممکن نہیں رہا اور یہ ادارہ قواعد کے مطابق اپنا کام جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
عالمی سلامتی کے حوالے سے ساکس نے کہا کہ امریکہ کی فوجی موجودگی اور اہم ہتھیاروں کے معاہدوں سے دستبرداری کشیدگی بڑھا رہی ہے جبکہ فضول اخراجات کی وجہ سے وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 5 (انگریزی): جیفری ساکس، ڈائریکٹر، سینٹر فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ، کولمبیا یونیورسٹی
’’ دنیا کا کوئی دوسرا ملک امریکہ کی اس منفرد پوزیشن کے قریب بھی نہیں پہنچتا جس کے دنیا بھر کے 80 ممالک میں 750 فوجی اڈے قائم ہیں۔میرے خیال میں یہ بات خود امریکہ کی سلامتی کے لئے نقصان دہ ہے اور عالمی امن کے لئے بھی ایک خطرہ ہے۔ ہمیں یہ کھلی حقیقت بھی نظر آ رہی ہے کہ مختلف مواقع پر ہم جوہری تصادم کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ ایٹمی سائنسدانوں کے بلٹن نے دنیا کو بتایا ہے کہ ہم جوہری تصادم سے 89 سیکنڈ کے فاصلے پر ہیں۔‘‘
ساکس نے خبردار کیا کہ غیر فعال تجارتی نظام، ہتھیاروں کی دوڑ، کھلی لڑائیوں اور موسمی تبدیلی اور پائیدار ترقی کے لئے کثیرالجہتی فریم ورک کی کمی جیسے عالمی چیلنجز ان یک طرفہ پالیسیوں کے خطرناک نتائج کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 6 (انگریزی): جیفری ساکس، ڈائریکٹر، سینٹر فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ، کولمبیا یونیورسٹی
’’ معاشی تجارت یا عالمی تجارت میں کسی کی جیت اور کسی کی ہار والی بات نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ہر فریق کا فائدہ ہے۔ جب امریکہ اور چین تجارت کرتے ہیں تو دونوں طرف فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن جب تجارتی تعلقات میں یک طرفہ ٹیرف فیسوں سے بگاڑ آتا ہے تو نقصان بھی دونوں طرف ہی ہوتا ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ ظاہر ہے سب سے زیادہ نقصان غریب ممالک کو ہوتا ہے۔ 80 سال پہلے ہمارے بزرگوں نے اقوام متحدہ قائم کر کے ایک شاندار کام کیا تھا تاکہ قانون اور احترام کا ایک عالمی نظام بنایا جا سکے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس نظام کو فروغ دیں۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم یک طرفہ اقدامات کی پالیسی سے پیچھے ہٹ جائیں اور ہر موقع پر کثیرالجہتی نظام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو فروغ دینے کے لئے اپنا سرگرم کردار ادا کریں۔ یہی ہماری حفاظت، بقا اور پائیدار ترقی کی کلید ہے۔‘‘
اقوام متحدہ سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link