اسلام آباد(شِنہوا)صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور سے تعلق رکھنے والے ماہر حشرات محمد تنویر زاہد کو چین میں 3 ماہ کے تربیتی کورس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، جہاں وہ اپنے خاندان سمیت گاؤں کے کسانوں کی مالی حالت کو بہتر بنانے میں مدد کے لئے جدید بیج کی پیداوار اور پروسیسنگ ٹیکنالوجی سیکھ رہے ہیں۔
تنویر زاہد نے شِنہوا کو بتایاکہ میں بیج کی پیداوار اور پروسیسنگ ٹیکنالوجی کے بارے میں سیکھ رہا ہوں کیونکہ مختلف فصلوں، خاص طور پر کپاس کی فی ایکڑ پیداوار، جو کبھی شاندار پیداوار دیتی تھی، اب کیڑوں کے حملوں اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کم ہو رہی ہے، اس لئے میں بہتر بیج اور انہیں کاشت کرنے کے طریقے کے بارے میں سیکھنے کا خواہشمند ہوں تاکہ پیداوار بہتر ہو۔
ماہر نے مزید کہا کہ ان کے علاقے کے کسان ہرموسم میں مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں، انہیں مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مقامی طور پر دستیاب بیج کی اقسام اور کاشت کاری کے فرسودہ طریقے جدید زرعی مسائل سے نمٹنے میں ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے چین میں تربیتی پروگرام کے لئے درخواست دی تاکہ خود کو نئے علم اور تکنیک سے لیس کر سکوں تاکہ میں مشکلات پر قابو پانے میں اپنے ضلع کے کسانوں کی مدد کر سکوں۔
تنویر زاہد ان 300 پاکستانی زیرتریبت امیدواروں میں سے ایک ہیں جو وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے شروع کئے گئے حکومتی اقدام کے تحت چین بھیجے گئے ہیں، جس کا مقصد ملک کے زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبوں کو مضبوط بنانا ہے۔ وطن واپسی کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ تربیت حاصل کرنے والے اپنے علم کو مقامی حکومتی حکام اور کسانوں تک پہنچائیں گے، جس سے پاکستان کے کاشتکاری کے طریقوں میں جدید تکنیک اور چینی طرز کے حل متعارف کرانے میں مدد ملے گی۔
اس وقت چین کے شمال مغربی صوبہ شانشی کے دارالحکومت شی آن میں نارتھ ویسٹ یونیورسٹی میں تربیت حاصل کرنے والے تنویر زاہد نے یونیورسٹی کی جدید سہولیات اور چینی اساتذہ کی لگن کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ زبان کی رکاوٹ کے باوجود علم کی منتقلی کے لئے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں اور یہاں کا ماحول ناقابل یقین حد تک معاون ہے۔
صوبہ بلوچستان میں نذیر احمد بانڈیجا بھی اسی طرح کے مقاصد کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر ، واٹر اینڈ میرین سائنسز کے لیکچرر نذیربانڈیجا کی توجہ لائیو سٹاک کی ترقی پر مرکوز ہے جو صوبے کی معیشت کا مرکز ہے۔
نذیر احمد نے شِنہوا کو بتایا کہ ہمارے گاؤں کے تقریباً ہر گھر میں مویشی ہیں لیکن ناقص خوراک اور جدید طریقوں کے فقدان کی وجہ سے دودھ اور گوشت کی پیداوار کم رہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے کسان مناسب چارہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور ان کے جانور بنجر زمین پر چرتے ہیں۔ میں یہاں سستے حل سیکھنے کے لئے آیا ہوں جو ہمارے مقامی حالات کے مطابق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان تعاون پہلے ہی بلوچستان کے گوادر خطے سمیت چینی اور پاکستانی یونیورسٹیوں کے درمیان متعدد مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) کا باعث بن چکا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ مستقبل کی شراکت داریوں میں لسبیلہ یونیورسٹی کو شامل کرکے مزید تعاون قائم کیا جاسکتا ہے۔
