’’ میں اس وقت انڈونیشیا کے شہر بانڈونگ میں موجود ہوں۔ 1955 میں اس شہر نے تاریخی بانڈونگ کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ یہ کانفرنس 18 اپریل سے 24 اپریل تک ایک ہفتہ جاری رہی تھی۔ اس کانفرنس کو ایشیا افریقہ کانفرنس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس سڑک کو جو آپ میرے پیچھے دیکھ رہے ہیں ایشیاافریقہ اسٹریٹ کا نام دیا گیا ہے۔ کانفرنس میں شریک 29 ایشیائی اور افریقی ممالک کے رہنما اور نمائندے اس سڑک پر مارچ کرتے ہوئے ایشیا افریقہ میوزیم تک پہنچے تھے۔ انہوں نے یہاں مل کر ’بانڈونگ اسپرٹ ، یکجہتی، دوستی اور تعاون‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہی جذبہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں آزادی کی تحریکوں کو تقویت ملنے کا باعث بنا۔ پھر اسی جذبے نےعالمی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): فتہرا فیصل، ماہر معیشت، یونیورسٹی آف انڈونیشیا
’’ اس وقت یہ دراصل نوآبادیاتی نظام سے نجات کا ایک جذبہ تھا۔ یہ جذبہ اس وقت کی منظم طاقتوں کے خلاف ایک ردِعمل تھا۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): ماکوشا موشے تیمبیلے، تنزانیہ کے سفیر، انڈونیشیا
’’ افریقہ کو بانڈونگ کانفرنس کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی ہے۔ اس کانفرنس نے بہت سے افریقی ممالک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ زیادہ تر افریقی ممالک بانڈونگ کانفرنس کے بعد ہی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔‘‘
اسٹینڈ اپ 2 (انگریزی) : سون لی، نمائندہ شِنہوا
’’ چین کے ’پرامن بقائے باہمی کے 5 اصولوں‘ کی بنیاد پر اس کانفرنس نے عالمی تعلقات کے 10 رہنما اصول طے کئے۔ ان رہنما اصولوں نے دنیا کو نسبتاً زیادہ منصفانہ اور شمولیتی نظام کی طرف گامزن کیا۔اس کانفرنس کے اثرات یہیں پر نہیں رکے۔ بانڈونگ کانفرنس نہ صرف عالمی جنوب کے ممالک بلکہ عالمی شمال اور عالمی جنوب کے درمیان بھی تعاون کی ایک مضبوط بنیاد بنی۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): ماکوشا موشے تیمبیلے، تنزانیہ کے سفیر، انڈونیشیا
’’ اس کانفرنس کو آج بھی ہماری سیاسی زندگی کے ایک نہایت اہم پہلو کی حیثیت حاصل ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 4 (انگریزی): فتہرا فیصل، ماہر معیشت، یونیورسٹی آف انڈونیشیا
’’ اگر آپ تعاون کو بقائے باہمی کا اصول بنا لیں تو اس طریقے سے ہم اپنی معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی اقتصادی نمو اور معاشی ترقی کو ایک ساتھ قائم رکھ سکتے ہیں۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 5 (انگریزی): محمد سیارونی رفیع، ماہر بین الاقوامی تعلقات، یونیورسٹی آف انڈونیشیا
’’ ایشیا و افریقہ کے جذبے کے ذریعے ہم عالمی رہنماؤں کو ایک پیغام دے سکتے ہیں۔ وہ پیغام یہ ہے کہ آج بھی ایک ایسی تہذیب کی تشکیل ممکن ہے جس میں دوسرے ممالک کے لئے احترام اور عالمی قوانین کی پاسداری کا جذبہ موجود ہو۔‘‘
اسٹینڈ اپ 3 (انگریزی): سون لی، نمائندہ شِنہوا
’’ 70 برس گزرنے کے بعد آج جب ترقی پذیر ممالک اپنے لئے جدت پسندی کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ ’بانڈونگ اسپرٹ‘ اس وقت بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 6 (انڈونیشین): رتنا وولنداری، رپورٹر ( بانڈونگ کانفرنس کی 60 ویں سالگرہ تقریب کی کوریج کرنے والی صحافی)
’’بانڈونگ اسپرٹ کو باہم مل کر کام کرنے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے رابطے کا ایک ذریعہ بنایا جائے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 7 (انگریزی): ماکوشا موشے تیمبیلے، تنزانیہ کے سفیر، انڈونیشیا
’’ جس سیاسی مایوسی کے خلاف افریقہ نے اُس وقت جدوجہد کی تھی وہ حیرت انگیز طور پر اُس اقتصادی مایوسی سے مشابہت رکھتی ہے جسے ہم آج کل جاری جغرافیائی سیاسی کشمکش کے دوران محسوس کر رہے ہیں۔ اسی لئے افریقہ کے براعظم کے لئے ’بانڈونگ اسپرٹ‘بے حد اہم ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 8 (انگریزی): فتہرا فیصل، ماہر معیشت، یونیورسٹی آف انڈونیشیا
’’ ہمارے پاس تعاون کے بے شمار مواقع موجود ہیں اور یہ سب شمولیتی نوعیت کے ہیں۔ یہی اصل جذبہ ہے جسے آج قائم رکھنے اور مستقبل میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 9 (انڈونیشین): ایمیر مونٹی، منیجر، کارپوریٹ کمیونی کیشنز، پی ٹی کریتا سیپت انڈونیشیا چائنہ
’’ ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ یقینی طور پر یہ وہی جذبہ ہے جو سال 1955 کی ایشیا افریقہ کانفرنس میں تھا اور یہی جذبہ آج بھی برقرار ہے‘‘
جکارتہ سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link