انڈونیشیا کے شہر بان ڈونگ میں 1955 کی ایشیائی-افریقی کانفرنس کے مقام کا منظر-(شِنہوا)
بیجنگ(شِنہوا)اپریل 1955 میں ایشیا اور افریقہ کے 29 ممالک کے نمائندے انڈونیشیا کے شہر بانڈونگ میں تاریخی ایشیائی-افریقی کانفرنس کے لئے جمع ہوئے جسے بانڈونگ کانفرنس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ اجلاس دنیا کے اس حصے کے بیدار ہونے کی علامت تھا جو بعد میں عالمی جنوب کہلایا۔
7 دہائیوں بعد بان ڈونگ کے یکجہتی، دوستی اور تعاون کے جذبے کی پیروی کرتے ہوئے عالمی جنوب نے نوآبادیاتی تسلط سے نجات سے لے کر مشترکہ ترقی اور بین الاقوامی نظام کی تشکیل نو تک مجموعی ترقی کا آزاد راستہ اختیار کیا ہے۔
چین نے ہمیشہ عالمی جنوب کی حمایت کی ہے۔ 1970 کی دہائی میں چین نے ایک ہزار 860 کلومیٹر طویل تنزانیہ-زیمبیا ریلوے کی تعمیر کے لئے 50 ہزار کارکنان متحرک کئے۔ چین الجیریا کی صوبائی حکومت کو تسلیم کرکے اس کی حمایت کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ کمبوڈیا کی آزادی کے لئے پرنس نوردوم سیہانوک کی جنگ کو بھی چین کی جانب سے بھرپور تعاون حاصل ہوا۔
اسی یکجہتی کے نتیجے میں 1971 میں چین کو اقوام متحدہ میں اس کی قانونی نشست واپس دلوانے میں عالمی جنوب کی اقوام نے مدد کی۔ الجیریا کے سابق سفارتکار نور الدین داؤدی کا کہنا ہے کہ یہ انصاف کی فتح تھی۔
1980 کی دہائی میں مغربی جرمنی کے سابق چانسلر ولی برانڈٹ کی صدارت میں بین الاقوامی ترقیاتی مسائل کے آزادانہ کمیشن نے شمال-جنوب بقا کے پروگرام کے عنوان سے رپورٹ جاری کی۔ فی کس مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کو کلیدی میٹرک کے طور پر استعمال کرتے ہوئے رپورٹ نے نقشے پر دنیا کو تقریباً 2 حصوں میں تقسیم کیا۔ لکیرکے اوپر امیر شمال اور اس کے نیچے غریب جنوب دکھایا گیا۔
برانڈٹ لائن نے عالمی جنوب کی معاشی پسماندگی اور دنیا بھر میں ترقیاتی عدم مساوات کو بے نقاب کیا۔ نسلوں تک ترقی پذیر قومیں سستی مزدوری اور خام مال فراہم کرنے تک محدود تھیں جبکہ مغربی طاقتیں وسائل کی تقسیم اور حکمرانی پر قابو رکھتی تھیں۔
بان ڈونگ کانفرنس نے جنوب-جنوب اقتصادی تعاون کی بنیاد رکھی۔ کانفرنس کی اقتصادی قرارداد نے ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور زیادہ منصفانہ عالمی اقتصادی نظام پر زور دیا۔
بان ڈونگ جذبے کے چیمپین کے طور پر چین نے ہمیشہ عالمی جنوب کے ترقیاتی حقوق کو برقرار رکھا۔ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور برکس کے قائم کردہ نئے ترقیاتی بینک نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لئے نئے مالی وسائل فراہم کئے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نے روابط کو بڑھا کر شراکت دار ممالک کے لئے ترقی کے نئے مواقع پیدا کئے۔
آج عالمی جنوب دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ ہے اور عالمی اقتصادی ترقی کا 80 فیصد محرک ہے۔ وہ خطے جو کبھی عالمی معیشت کے کنارے پر تھے اب سب سے متحرک ترقی کے انجن بن چکے ہیں۔
