پیر, اگست 18, 2025
تازہ ترینچینی ثقافت سے زندگی روشن بنائیں: کیمرون کے کنگ فو ماہر کی...

چینی ثقافت سے زندگی روشن بنائیں: کیمرون کے کنگ فو ماہر کی رائے

کیمرون سے تعلق رکھنے والے فبریس مبا، مارشل آرٹس کے شوقین شخص ہیں۔ انہیں بچپن ہی سے کیمرون کے جنوبی شہر سانگ میلیما میں چین کی ثقافت اور کنگ فو سے لگاؤ تھا۔

انہوں نے یونیورسٹی آف یاؤندے دوم کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں  وہ چین کے مشہور ’شاؤلن معبد‘  گئے جہاں انہیں مارشل آرٹس اور روایتی چینی طب کی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔

ساؤنڈ بائٹ 1 (فرانسیسی): فبریس مبا، صدر کیمرون کنگ فو فیڈریشن و ماہرِ روایتی چینی طب

’’ مجھے کنگ فو اور چین کی ثقافت کے بارے میں فلموں کے ذریعے آگاہی ملی۔ میں سال 2015 میں پہلی بار چین گیا تھا جہاں مجھے شاؤلن مندر  کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں میں نے چین کی ثقافت کو قریب سے دیکھا اور  چینی طب کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں۔چین کی ثقافت بہت شاندار اور بے حد وسیع ہے۔‘‘

فبریس مبا آجکل کیمرون میں نوجوانوں کو فزیوتھراپی اور کنگ فو کے تربیتی پروگرام کراتے ہیں۔ یہ پروگرام نوجوانوں میں مہارتیں اور خود اعتمادی پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 2 (فرانسیسی): فبریس مبا، صدر کیمرون کنگ فو فیڈریشن و ماہرِ روایتی چینی طب

’’ ہمارا پروگرام اب بھی جاری ہے۔ ہم ہر سال تقریباً 100 نوجوانوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ آئندہ برس ہم متعدد نئے کورس بھی  کروائیں گے۔چین کا فلسفہ بہت گہرا ہے۔ چین افریقہ کے لئے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔

آج ہم افریقی نوجوان بہت سے شعبوں میں چین کی پیروی کر رہے ہیں۔ ہم اس امید کے ساتھ چین سے سیکھ رہے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ہم بھی چیزوں کو دیکھنے کا یہی انداز، یہی فلسفہ، تعلیم دینے کا یہی طریقہ اور حتیٰ کہ جینے کا بھی یہی طرز اپنا سکیں گے۔‘‘

مبا، کنگ فو اور روایتی چینی طب کے حوالے سے کیمرون میں آج  ایک جانا پہچانا نام ہیں۔

ساؤنڈ بائٹ 3 (فرانسیسی): فبریس مبا، صدر کیمرون کنگ فو فیڈریشن و ماہرِ روایتی چینی طب

’’ کیمرون میں چین کی ثقافت کو فروغ دینا دراصل کیمرون کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ آپ غربت کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں، اپنی سوچ تبدیل سکتے ہیں، خود کو بہتر بنا سکتے ہیں، محنت کر سکتے ہیں اور نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ثقافت ہے جس نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ کل ہم کس مقام پر تھے اور آج کس مقام پر کھڑے ہیں۔‘‘

یاؤندے سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
+ posts
متعلقہ خبریں
- Advertisment -
Google search engine

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

error: Content is protected !!