امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے عالمی سطح پر ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کیا جس میں یورپی یونین سے آنے والی درآمدات پر 20 فیصد ڈیوٹی بھی شامل ہے۔
اسٹیل، ایلومینیم، گاڑیوں اور آٹو پارٹس پر پہلے سے عائد امریکی محصولات کی موجودگی میں یہ تازہ اقدام متعدد خطرات اور خدشات کا باعث بن چکا ہے۔ امریکہ کی ٹیرف پالیسی سے مہنگائی میں تیزی آ سکتی ہے، معاشی ترقی کی رفتار سست ہونے کا امکان ہے جبکہ یہ صورتحال یورپی یونین کو کساد بازاری کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
3 اپریل 2025
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): ارسلا وان ڈیر لیین، صدر، یورپی کمیشن
’’ صدر ٹرمپ کا یورپی یونین سمیت دنیا بھر پر عالمی محصولات کا اعلان عالمی معیشت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے۔
تمام کاروبار، چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے، پہلے روز سے ہی زیادہ غیر یقینی صورتحال اور سپلائی چینز میں رکاوٹوں کا سامنا کریں گے۔ امریکہ کے ساتھ کاروبار کرنے کی لاگت میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوگا۔ سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ ٹیرف پالیسی میں کوئی ترتیب دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی واضح طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ کوئی صاف راستہ موجود نہیں ہے۔ جو پیچیدگیاں اور افراتفری پھیل رہی ہے اس سے امریکہ کے تمام تجارتی شراکت دار متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
یورپی یونین نے باہمی یکجہتی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کثیر مراحل پر مبنی جوابی کارروائی کا ایک منصوبہ بھی تیار کر لیا ہے۔ دوسری جانب مذاکرات کے دروازے کو بھی کھلا رکھا گیا ہے۔
4 اپریل 2025
ساؤنڈ بائٹ 2 (سلوواکی): ڈینیسہ ساکووا، نائب وزیراعظم و وزیرمعاشیات، سلوواکیہ
’’ یورپی کمیشن اعلان کردہ محصولات کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے پُرعزم ہے۔ ہم اپنی طرف سے بہتر ین کوشش کریں گے کہ یورپی یونین میں ان کے اثرات کو جتنا ممکن ہو سکے کم کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ محصولات پر مذاکرات کر کے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان کے اثرات بہت زیادہ نہ ہوں اور یہ عالمی تجارت میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔
یقین کیجئے اگر یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو پابندیوں کی ایک فہرست موجود ہے۔ یہ پابندیاں جوابی طور پر یورپی منڈی میں امریکی مصنوعات کی درآمد پر لاگو کی جائیں گی۔‘‘
یورپی یونین کے ابتدائی تخمینے کے مطابق ٹرمپ کے اعلان کردہ محصولات امریکہ کو درآمد کی جانے والی یورپی یونین کی تقریباً 70 فیصد برآمدات پر لاگو ہوں گے جن کا حجم 380 ارب یورو (417 ارب امریکی ڈالر) ہے۔
اس وقت بحر اوقیانوس کےعلاقے میں تجارتی اور اقتصادی تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکی محصولات میں اضافے سے یورپی کمپنیوں کو فوری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سے یورپی یونین میں معاشی بحالی کاعمل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): ہولگر گورگ، پروفیسر عالمی معاشیات، یونیورسٹی آف کیئل، جرمنی
’’ کمپنیاں غیر یقینی صورتحال سے نفرت کرتی ہیں۔
کمپنیوں کو طویل مدتی فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہاں پیداوار کرنا چاہتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس ایسا غیر مستحکم ماحول ہے یعنی غیر یقینی حالات ہیں تو آپ واقعی یہ فیصلے نہیں کر سکتے۔
میرا خیال ہے کہ یہ ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔ معیشت کس طرف جا رہی ہے اور صدر اسے کس طرف لے جانا چاہتے ہیں، ان محصولات کے ہوتے ہوئے صورتحال بہت حد تک زیادہ غیر واضح ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ صدر سچ میں سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 4 (کیٹلن): سرجی باسکو، پروفیسر معاشیات، یونیورسٹی آف بارسلونا، اسپین
’’ ایک بات واضح ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب تک محصولات کی جنگ جاری رہے گی اس کے نتیجے میں مہنگائی ہر سطح پر بڑھے گی۔ معیشت پر منفی اثر پڑے گا۔ جب قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اس کےنتیجے میں پیداوار میں بھی کمی آتی جائے گی۔
محصولات عائد ہونے پر ممالک مجبور ہو جاتے ہیں کہ سامان زیادہ قیمت پر تیار کریں ۔ ان کی وجہ سے زیادہ مؤثر پیداوار کے ذرائع تک ممالک کی رسائی میں رکاوٹیں آ جاتی ہیں۔
محصولات میں اس اضافے کا مجموعی اقتصادی پیداوار میں کمی سے گہرا تعلق ہے۔‘‘
برسلز سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link