ایک آسٹریلوی ماہر کا کہنا ہے کہ عالمگیریت معاشی استحکام اور ترقی کے لئے فائدہ مند ہے، اس لئے آزاد تجارت اور سرمایہ کاری کو تحفظ پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر پر ترجیح دینی چاہئے۔
یونیورسٹی آف سڈنی کے چائنہ اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈیوڈ گڈمین نے شِنہوا کو دئیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں تحفظ پسندی، عالمگیریت اور چین کی تیز رفتار ترقی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
گڈمین نے موجودہ عالمی منظرنامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں محدود سوچ پر مبنی تحفظ پسندی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ گڈمین کو یقین ہے کہ یہ محدود سوچ لمبے عرصے کے لئے پائیدار ثابت نہیں ہو گی۔
گڈمین نے تفصیل سے بتایا کہ ٹیرف میں اضافہ سمیت تحفظ پسند پالیسیاں کس طرح عام شہریوں کے لئے روزمرہ کے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): ڈیوڈ گڈمین، ڈائریکٹر، چائنہ اسٹڈیز سینٹر، یونیورسٹی آف سڈنی
’’ گزشتہ چند برسوں میں ہم نے کئی ممالک میں سیاسی رہنماؤں کو تنگ نظر قوم پرستی کو دوبارہ اپناتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ طریقہ کسی صورت بھی کار آمد نہیں۔ آپ ٹیرف میں اضافہ کر تو لیتے ہیں لیکن اس سے آپ کے اپنے ہی ملک میں چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اور یہی بات ان لوگوں کو غریب تر بنا دیتی ہے جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ بلند ٹیرف کی پالیسی امیروں کو تو امیرتر بنا سکتی ہے لیکن یقینی طور غریبوں کی مدد نہیں کرتی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عام لوگوں کا اس میں کوئی بھلا نہیں۔ جو کچھ ٹرمپ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے شواہد دیکھ کر تو مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ امریکی معیشت کو زوال کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔‘‘
گڈمین نے چین کی معاشی ترقی کے حوالے سے کچھ مغربی ممالک میں پائے جانے والے خوف کا بھی ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ خوف زیادہ تر چین کے بارے میں لاعلمی کی وجہ سے ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): ڈیوڈ گڈمین، ڈائریکٹر، چائنہ اسٹڈیز سینٹر، یونیورسٹی آف سڈنی
’’ دنیا بڑی حد تک چین کے بارے میں لاعلم ہے۔ ایک تو وہ چین کی ثقافت کو سمجھ ہی نہیں رہی اور دوسرا یہ کہ اس کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کر رہی۔ وہ بس یہی دیکھ رہے ہیں کہ چین انتہائی کم وقت میں بہت زیادہ دولت مند ہو گیا ہے۔ آپ اس بات پر اصرار نہیں کر سکتے کہ ایک ملک اپنی ترقی کے عمل کو روک دے۔‘‘
بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے گڈمین نے خاص طور پر نوجوانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ثقافتی رابطوں میں تیزی لانے کی اہمیت پر زور دیا۔
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): ڈیوڈ گڈمین، ڈائریکٹر، چائنہ اسٹڈیز سینٹر، یونیورسٹی آف سڈنی
’’ میرے لئے سب سے اہم بات طویل مدتی حکمت عملی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ دونوں طرف کے نوجوانوں کو باہمی رابطوں کی ترغیب دیں تاکہ انہیں ایک دوسرے کو جاننے کا موقع مل سکے۔ بظاہر تو یہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے تفریح کا باعث بنے گا۔ میں جانتا ہوں کہ ایک لحاظ سے ایسا ہی ہے۔ لیکن مستقبل میں اس کے ذریعے تعلقات بھی استوار ہوں گے۔‘‘
سڈنی، آسٹریلیا سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link