دنیا کے گلوبل ساؤتھ ممالک عالمی ترقی میں 80 فیصد تک کا حصہ ڈال رہے ہیں جبکہ عالمی جی ڈی پی کا 40 فیصد سے زائد حصہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک دنیا میں امن کو برقرار رکھنے، ترقی کو آگے بڑھانے اور عالمی حکمرانی کو بہتر بنانے کے حوالے سے بھی ایک اہم قوت سمجھے جاتے ہیں۔
اسٹینڈ اپ (انگریزی): لی زی وی، نمائندہ شِنہوا
’بیجنگ میں جاری اس فورم میں حکومتی عہدیدار، مالیاتی اداروں کے نمائندے، صنعتی ماہرین اور محققین ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں۔ یہاں شرکا اس بات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک عالمی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے آپس میں تعاون کیسے بڑھا سکتے ہیں۔‘‘
’2025 گلوبل ساؤتھ فنانسرز فورم‘ کا بیجنگ میں انعقاد کیا گیا ۔ فورم کے شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کو گہرا کرنا بہت ضروری ہے۔
ساؤنڈ بائٹ 1 (انگریزی): مارک اوزان، ایگزیکٹو ڈائریکٹر،ر رینوینٹنگ بریٹن وڈز کمیٹی
’’ میرا خیال ہے کہ اس فورم کا انعقاد صحیح وقت میں اور درست لمحے پر ہو رہا ہے۔ آپ کے پاس ایک فورم ہے جہاں آپ دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک کے نمائندوں کو جمع کر سکتے ہیں تاکہ اس موضوع پر بات کی جا سکے کہ ہم نے منتقلی کے اس دور سے کیسے گزرنا ہے۔ یہ فورم ایسے وقت میں ہوا ہے جب عالمی معیشت میں بہت زیادہ غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ یہ ممالک کو ایک جگہ جمع کرنے کا ایک اچھا موقع ہے تاکہ ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا جائے جو سب کے لئے کام کرے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 2 (انگریزی): ڈیوڈ ای سمیول، چیف اکانومسٹ، بینک سینٹرل ایشیا، انڈونیشیا
’’ میرے خیال میں اس قسم کا فورم اس لئے بھی اہم ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کو جان سکیں اور ہمیں ماہرین کے بارے میں علم ہو سکے۔ اس فورم پر ہم دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک کے درمیان ایک نیٹ ورک قائم کر سکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں جنوبی خطے کے ممالک میں مالیاتی تعاون کے حوالے سے گلوبل ساؤتھ کی طرح کا ایک فورم بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 3 (انگریزی): یسیرو رانا راجا، ڈائریکٹر، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، سری لنکا
’’ مجھے دنیا بھر میں جنوبی خطے کے ممالک کے مالیاتی نمائندوں کی ایک بڑی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے لگتا ہے کہ فورم نے ایسے افراد کو اکٹھا کرنے کی بات اجاگر کی ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 4 (انگریزی): گلوان بوئینو، ماہر مالیات، برازیل
’’ گلوبل ساؤتھ فنانسرز فورم ایک اچھا مقام ہے۔ یہاں ترقی کے لئے بہت سے نئے مواقع، نئی ٹیکنالوجی اور مالیاتی منڈیوں کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 5 (انگریزی): کلاؤس ڈائیٹر کیمپفر، چیف ایگزیکٹو، ابسا چائنہ
’’ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بہت اہم فورم ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگ مشترکہ مسائل اور مشترکہ مفادات پر بات کریں۔ ان کا اس بات پر اتفاق کرنا ضروری ہو گا کہ مسائل کیسے حل کئے جائیں اور آگے جانے کا راستہ کیسے نکالا جائے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 6 (انگریزی): جاناتھن ٹائٹس ولیمز، ڈپٹی وزیر، وزارت منصوبہ بندی و اقتصادی ترقی، حکومت سیرا لیون
’’ میں مالیاتی حوالے سے جنوبی خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کا شاندار مستقبل دیکھ رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے لئے درحقیقت اس بحث کا حصہ بننا بہت ہی ضروری ہے۔‘‘
حکومتی عہدیدار، میڈیا کے نمائندے اور صنعتی ماہرین جنوبی خطے کے ممالک کے درمیان تعاون میں چین کے کردار کو بہت زیادہ سراہتے ہیں۔
ساؤنڈ بائٹ 7 (انگریزی): جاناتھن ٹائٹس ولیمز، ڈپٹی وزیر، وزارت منصوبہ بندی و اقتصادی ترقی، حکومت سیرا لیون
’’چین کا کردار بہت اہم ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنے ملک میں چین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں چین کے بہت سے سرمایہ کار موجود ہیں جو مختلف سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 8 (انگریزی): یسیرو رانا راجا، ڈائریکٹر، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، سری لنکا
’’چین کی مدد زیادہ تر تعاون پر مبنی ہوتی ہے۔ اس میں مختلف قوموں کے درمیان اتفاق رائے اور ہم آہنگی تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 9 (انگریزی): جوز لوئس بارسیلو، ایڈیٹر ڈائریکٹر، اخبار ’ایل منڈو فنانسیرو‘ اسپین
’’چین نے ایسی بہت سی شروعات کی ہیں جن میں دوسرے ممالک کا احساس کیا گیا ہے۔ ان شروعات کو بہت اچھے طریقے سےلیا گیا ہےاور یہ بہت بہتر ہے۔ ‘‘
ساؤنڈ بائٹ 10 (چینی): لی گو پنگ، ڈائریکٹر، ڈیجیٹل اکانومی اینڈ فِن ٹیک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بائی وانگ کمپنی لمیٹڈ
’’ چین کی ڈیجیٹل حکمرانی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں پیشرفت دنیا کے جنوبی خطے کے ممالک کے لئے ایک نمونے کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ یہ ممالک عالمی ترقی کے لئے ایک اہم قوت بن رہے ہیں۔ ان کے درمیان آئندہ تعاون بلاشبہ عالمی معیشت کو نئی توانائی فراہم کرے گا۔ اس سے عالمی ترقی کے عمل کو مستحکم یا تیز کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘
ساؤنڈ بائٹ 11 (انگریزی): جین موزے، صدر، فارن پریس ایسوسی ایشن، سوئٹذرلینڈ اینڈ لکٹنسٹائن
’’خیالات کے حوالےسے زیادہ سے زیادہ اشتراک اور برابری ضروری ہے۔ ہم اکیلے نہیں رہ سکتے۔ ہم اب دنیا کا حصہ ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
بیجنگ سے نمائندہ شِنہوا نیوز ایجنسی کی رپورٹ

شنہوا
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link
- شنہوا#molongui-disabled-link