شام کے شمال مغربی صوبے لاذقیہ میں طرطوس-لاذقیہ شاہراہ پر شامی فوجی گشت کررہے ہیں۔(شِنہوا)
دمشق(شِنہوا) شام میں انسانی حقوق کے مبصرین نے بتایا ہے کہ شام کے ساحلی علاقے میں تشدد کی حالیہ لہر میں کم از کم ایک ہزار 383 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
شام کی وزارت دفاع کے مطابق تشدد کے واقعات 6 مارچ کو سابق صدر بشار الاسد کے وفادار مسلح گروہوں کی جانب سے ساحلی صوبہ لاذقیہ میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد شروع ہوئے تھے جس میں کم از کم 16 سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ترجمان ثامین ال خیتان نے کہا کہ تشدد تیزی سے بڑے پیمانے کی فرقہ وارانہ جھڑپوں میں تبدیل ہو گیا جس میں خاص طور پر علوی اکثریتی قصبوں اور دیہات کو نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس واقعات میں شام کی عبوری حکومت کے ساتھ ساتھ اسد کے حامی دھڑوں کے جنگجو بھی ملوٹ تھے۔ علوی برادری ایک اقلیتی فرقہ ہے جس کا بشار الاسد کے دور میں شام کے اقتدار پر غلبہ تھا۔
برطانیہ میں قائم مبصر ادارے نے کم سے کم 1 ہزار 383 شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے تدفین کے نامناسب طریقہ کار سے متعلق خبردار کیا ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر تشدد کے سبب بحران سے نمٹنے کی مقامی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
